آبلے پھول ہوئے گرچہ نہ پائی منزل

ثامر شعور

محفلین
آبلے پھول ہوئے گرچہ نہ پائی منزل
دو قدم ساتھ ترا میرے سفر کا حاصل

ڈوب جاتا جو بھنور میں تو نئی بات نہ تھی
سانحہ یہ ہے کہ آیا ہے ڈبونے ساحل

بات کرنے سے جو خوشبو سی بکھر جاتی ہے
میرے لفظوں میں ہوا ہے ترا لہجہ شامل

اجنبی بن کے کبھی ایسے نہ ملتی مجھ سے
زندگی تو جو سمجھتی مجھے اپنے قابل

رات پھر ایک ہی لمحے میں جیا ہوں ثاؔمر
رات پھر اس کو بھلانا تھا بہت ہی مشکل​
 
Top