آئیں گیتوں میں باتیں کریں

سیما علی

لائبریرین
پھول تجھے لگ جائے میری عمر
پھول آہستہ پھینکو
پھول آہستہ پھینکو
پھول بڑے نازک ہوتے ہیں
پھول آہستہ پھینکو
پھول بڑے نازک ہوتے ہیں
ویسے بھی تو یہ بڑھ-قسمت
نوک پے کانٹوں کی سوتے ہیں
پھول آہستہ پھینکو
پھول بڑے نازک ہوتے ہیں
آہستہ پھینکو پھول
بڑے نازک ہوتے ہیں
پھول آہستہ پھینکو
پھول بڑے نازک ہوتے ہیں
 

سیما علی

لائبریرین
پھول تجھے لگ جائے میری عمر
بہارو پھول برساؤ میرا محبوب آیا ہے
ہواؤ راگنی گاؤ میرا محبوب آیا ہے
میرا محبوب آیا ہے

او لالی پھول کی مہندی لگا ان گورے ہاتھوں میں
اتر آ اے گھٹا کاجل لگا ان پیاری آنکھوں میں
ستارو! مانگ بھر جاؤ، میرا محبوب آیا ہے
بہارو پھول برساؤ میرا محبوب آیا ہے
میرا محبوب آیا ہے
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
جانے کیوں لوگ محبت کیا کرتے ہیں
دل کے بدلے درد دل لیا کرتے ہیں
جانے کیوں لوگ محبت کیا کرتے ہیں
تنہائی ملتی ہے محفل نہیں ملتی
راہ محبت میں کبھی منزل نہیں ملتی
دل ٹوٹ جاتا ہےناکام ہوتا ہے
الفت میں لوگوں کا یہی انجام ہوتا ہے
کوئی کیا جانے کیوں یہ پروانے
کیوں مچلتے ہیں غم میں جلتے ہیں
آہیں بھر بھر کے دیوانے جیا کرتے ہیں
جانے کیوں لوگ محبت کیا کرتے ہیں

ساون میں آنکھوں کو کتنا رلاتی ہے
فرقت میں جب دل کو کسی کی یاد آتی ہے
یہ زندگی یونہی برباد ہوتی ہے
ہر وقت ہونٹوں پہ کوئی فریاد ہوتی ہے
نہ دعاّں کا نام چلتا ہے
نہ دعاؤں سے کام چلتا ہے
زہر یہ پھر بھی سبھی کیوں پیا کرتے ہیں
جانے کیوں لوگ محبت کیا کرتے ہئں

محبوب سے ہر غم منسوب ہوتا ہے
دن رات الفت میں تماشہ خوب ہوتا ہے
راتوں سے بھی لمبے یہ پیار کے قصے
عاشق سناتے ہیں جفائے یار کے قصے
بے مروت ہےبے وفا ہے وہ
اس ستمگر کا اپنے دل پر گھاؤ
نام لے لے کے دہائی دیا کرتے ہئں
جانےکیوں لوگ محبت کیا کرتے ہیں
:cry: :cry: :cry:
 

سیما علی

لائبریرین
تیری محفل سے یہ دیوانہ چلا جائے جی
شمع جلتی رہے پروانہ چلا جائے گا

قصہ درد سنانے کی اِجازَت نا ملی
کیا جئے گا وہ جسے تیری محبت نا ملی

درد کا لے کے وہ افسانہ چلا جائے گا
پیار کے پھول یہاں اور بھی کھل جائیں جی

چاہنے والے تمہیں اور بھی مل جائیں گے
اپنے رہ جائیں گے بے گانہ چلا جائے گا
 

سیما علی

لائبریرین
قصہ ء غم میں تیرا نام نہ آنے دیں گے
ہم تیرے پیار پہ الزام نہ آنے دیں گے
دل تو ٹوٹا ہے نہ ٹوٹے گا مگر عہد ِ وفا
جل کے اس آگ میں ہم راکھ ہی ہو جائیں تو کیا؟
لب ہم پہ ہم آہوں کا پیغام نہ آنے دیں گے
گر ترے غم میں پھرے چاک گریباں ہو کر
تیرے کوچے سے نہ گزریں گے پریشاں ہو کر
ہم کبھی تجھ کو لب ِ بام نہ آنے دیں گے
ہم تیرے پیار پہ الزام نہ آنے دیں گے
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ہم تیرے پیار پہ الزام نہ آنے دیں گے
ہم پہ الزام تو ویسے بھی ہے ایسے بھی سہی
نام بدنام تو ویسے بھی ہے ایسے بھی سہی
ہم پہ الزام تو ویسے بھی ہے ایسے بھی سہئ

اپنے زخموں کا فسانہ کیوں زمانے کو سنائیں
کیوں نہ ان سہمے لبوں پر گیت خوشیوں کے سجائیں
ہے تھکن سانسوں میں، جاگتی آنکھوں میں
غم کا پیغام تو ویسے بھی ہے ایسے بھی سہی
ہم پہ الزام تو ویسے بھی ہے ایسے بھی سہی
 

سیما علی

لائبریرین
اپنے زخموں کا فسانہ کیوں زمانے کو سنائیں

تقدیر کا فسانہ جا کر کسے سنائیں
اس دل میں جل رہی ہیں ارمان کی چتائیں

سانسوں میں آج میرے طوفاں اٹھ رہے ہیں
شہنائیوں سے کہہ دو کہیں اور جا کے گائیں

متوالے چاند سورج تیرا اٹھائے ڈولا
تجھ کو خوشی کی پریاں گھر تیرے لے کے جائیں

تم تو رہو سلامت سہرا تمہیں مبارک
میرا ہر ایک آنسو دینے لگا دعائیں
 

سیما علی

لائبریرین
محبوب سے ہر غم منسوب ہوتا ہے
میرے محبوب قیامت ہوگی
آج رسوا تیری گلیوں میں محبت ہوگی
نام نکلے گا تیرا ہی لب سے
جان جب اس دلِ ناکام سے رخصت ہوگی
میرے محبوب۔۔۔
میرے صنم کے در سے اگر
بادِ صبا ہو تیرا گزر
کہنا ستم گر کچھ ہے خبر
تیرا نام لیا جب تک بھی جیا
اے شمع تیرا پروانہ
جسے اب تک تجھے نفرت ہوگی
آج رسوا تیری گلیوں میں محبت ہوگی
 
Top