آئینہ

عظیم خواجہ

محفلین
ہوا ہے ساتھ میرے اشکبار آئینہ
وہ میرا دوست میرا غمگسار ، آئینہ

اسے ذرا بھی تصنع کا فن نہیں آتا
کرے گا کیسے بھلا مجھ سے پیار، آئینہ

ادھر ادھر سے کرے مجھ پہ وار آئینہ
بنا ہے جب سے تیرا کاروبار ، آئینہ

نہ جانےخواب میں کیاکہہ گیا کوئ ان سے
بغور دیکھتے ہیں منہ نہار ، آئينہ

ہے عکس ء یار وگرنا تیری وقعت کیا ہے
دکھا کے دیکھ ذرا آئینے کو آئینہ

تم اپنے آپ سے دو طرفہ گفتگو کے ليئے
ہٹا کے دیکھنا دل سے غبار ، آئينہ

جنوری ۲۰۱۵
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
بہت اچھی غزل ہے بھئی ۔بہت بہت خوب عظیم خواجہ صاحب۔ بہت پسند آئی سلاست ۔اور نپا تلا انداز اچھا ہے۔
عکس والے شعر کےپہلے مصرع میں کچھ کتابت کی ترتیب درست نہیں لگ رہی۔
اور ایک دخل در معقولات یہ کہ تیسرے شعرکو مطلع ثانیہ بنایا جائے تو بہتر ہو دو مطلعوں سے غزل اور اچھی لگتی ہے۔
اب جب دخل دے ہی دیا جائے تو ایک نکتہ ،بشرطے کہ نکتہ چینی پر محمول نہ کیا جائے، یہ بھی مذکور ہو جائے کہ نہار منہ محآورہ ہے منہ نہار کی ترکیب شعر کو متاثر کر رہی ہے۔
امید ہے ناگوار نہیں گزرے گا ۔ بصد آداب
 

عظیم خواجہ

محفلین
بہت اچھی غزل ہے بھئی ۔بہت بہت خوب عظیم خواجہ صاحب۔ بہت پسند آئی سلاست ۔اور نپا تلا انداز اچھا ہے۔
عکس والے شعر کےپہلے مصرع میں کچھ کتابت کی ترتیب درست نہیں لگ رہی۔
اور ایک دخل در معقولات یہ کہ تیسرے شعرکو مطلع ثانیہ بنایا جائے تو بہتر ہو دو مطلعوں سے غزل اور اچھی لگتی ہے۔
اب جب دخل دے ہی دیا جائے تو ایک نکتہ ،بشرطے کہ نکتہ چینی پر محمول نہ کیا جائے، یہ بھی مذکور ہو جائے کہ نہار منہ محآورہ ہے منہ نہار کی ترکیب شعر کو متاثر کر رہی ہے۔
امید ہے ناگوار نہیں گزرے گا ۔ بصد آداب
بہت بہت شکریہ جناب۔ میں ان نکات پر عمل کرنے کی کوشش کروں گا اور آئندہ خیال رکھوں گا۔
 

x boy

محفلین
زبردست
لیکن آئینہ دیکھے بغیر رہ بھی کیسے سکتے ہیں،،، اب تو آئینہ ہر جگہہ ہوتا ہے
آفس میں آئینہ، شوروم میں آئینہ، کیفیٹیریاء میں آئینہ، جم میں بھی آئینہ ہی آئینہ۔
اب بندہ اپنے آپ کا فزکس دیکھ ہی لیتا ہے چلتے ہوئے پیٹ آگے ہوتا ہے یا قدم
بیٹھے ہوئے پیٹ شرم گاہ کو چھپاتی ہے یا جینس پینٹ، اگر قدم آگے ہوتو
اورجینس فٹ ہوتو سمجھے کہ وہ شرمسار نہیں ہے اگر جوان ہو آئینہ منہ چڑائے
تو سمجھ لینا چاہئے کہ دنیا کچھ نہیں بول رہی تو کیا ہوا ۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
سید عاطف علی صاحب ایک نظر پھر ڈال دیں عین نوازش ہوگی۔ شکریہ
ہوا ہے ساتھ میرے اشکبار آئینہ
وہ میرا دوست میرا غمگسار ، آئینہ

ادھر ادھر سے کرے مجھ پہ وار آئینہ
بنا ہے جب سے تیرا کاروبار ، آئینہ

اسے ذرا بھی تصنع کا فن نہیں آتا
کرے گا کیسے بھلا مجھ سے پیار، آئینہ

نہ جانےخواب میں کیاکہہ گیا کوئ ان سے
صبح سے دیکھتے ہیں بار بار ، آئينہ

ہے عکسِ یار وگرنا تیری وقعت کیا ہے
دکھا کے دیکھ ذرا آئینے کو آئینہ

تم اپنے آپ سے دو طرفہ گفتگو کے ليئے
ہٹا کے دیکھنا دل سے غبار ، آئينہ

جنوری ۲۰۱۵
خواجہ صاحب ۔ بہت اچھا ۔
لیکن صبح کا تلفظ ٹھیک نہیں آرہا بحر کے لحاظ سے ۔۔۔۔ صبح کا وزن فاع ہے اور یہاں فعو بن گیا جو درست نہیں ۔۔۔۔۔ اسے "بغور" ہی دہنے دیا جاسکتا ہے ۔ یعنی اس شعر میں "بار بار" کی تبدیلی کافی ہے۔
عکس والے مصررع کا وزن اب بھی فٹ نہیں ۔ اسے اس طرح فٹ کر سکتے ہیں ۔۔۔۔ اے عکسِ یار وگرنا ہےتیری وقعت کیا ۔۔۔
آپ کے استشار میں حسن ظن کے لیے ممنون ہوں کہ میں کوئی استاد نہیں بہر حال رائے پیش ہے۔ ۔۔آداب اور ایک بار پھر بہت سی داد ۔۔۔۔
 

عظیم خواجہ

محفلین
بجا فرمایا۔ اور یہ تو غزل کی شرط بھی ہے۔سو اس پر توجہ دینا ضروری ٹھہرا ۔
یہ کیسے ہو گیا سمجھ نہیں آرہا۔
دکھا کے دیکھ ذرا آئینے کو آئینہ

یہاں قافیہ بھی غائب ہے
ابن رضا بھائ اور عاطف بھائ اس غزل کو کافی مسائل درپیش ہیں۔ میں اسے واپس ڈرائنگ بورڈ لیے جاتا ہوں۔ آپ دونوں کا بےحد شکریہ۔
 
Top