آئینہ سے شیشہ بننے تک سے اقتباس از مبشر الحق عباس

شمشاد

لائبریرین
ہوسٹل یونیورسٹی کا وہ خطہ ہوتا ہے جہاں کے قواعد وضوابط اور قوانین یہاں تک کہ وقت کی تقسیم اور اکائی باقی یونیورسٹی بلکہ پورے ملک سے یکسر مختلف ہوتی ہے۔ کبھی یہ پانچ ہزار برس قبل مسیح کی بستی معلوم ہوتی ہے اور کبھی پانچ ہزار برس بعداز مسیح کا جدید علاقہ۔ ہوسٹل میں کھانے کے مقابلے دیکھیں تو اس بات کی تصدیق ہوسکتی ہے۔

پانی کے گلاس پینے پر منفی ایک نمبر، روٹی کا ایک نمبر اور سالن کی پلیٹ کے دو نمبر، عموماً 28 سے 30 نمبر حاصل کرنے والا جی دار دوسری پوزیشن حاصل کرتا ہے۔ خوش خوراکی سے زیادہ حیرت اس بات پر ہونی چاہئیے کہ کوئی ذی روح، صاحب نظر وعقل ہوسٹل کے سالن کی دوسری پلیٹ کیسے کھا لیتا ہے۔

ہوسٹل کی میس (Mess) میں موسم کی سبزی ہی پکتی ہے مثلاً مٹر کے زمانے میں مٹر گوشت، مٹر قیمہ،آلومٹر، مٹر کے چاول یہاں تک کہ پانی کے جگ میں مٹر کے دانے تیرتے ہوئے ملتے ہیں کبھی باورچی ترنگ میں ہو تو کھانا اچھا بھی پکا لیتا ہے یا یوں کہیں کہ اس کے ہاتھ کے کھانے کی عادت سی ہو جاتی ہے۔صیاد سے مانوس ہونا اسی کو کہتے ہیں۔

وہ امی کے ہاتھ کے کھانے بہن کے ہاتھ کے پراٹھے یاد ماضی بن جاتے ہیں۔ باورچی کی یاد اس وقت بہت آتی ہے جب وہ نہیں ہوتا۔ موسم گرما کی چھٹیوں کے بعد یا کسی مجبوری کے تحت اگر وہ نہ ہو تو ہوسٹل کے شیر اس بلی کے بچے بن جاتے ہیں جسے ان کی ماں چھوڑ کر کہیں چلی جائے۔ بغیر بوٹی کے سالن کی اضافی پلیٹ جسے سپلی (سپلیمینٹری کا مخفف) کہا جاتا ہے کھانے کا مزہ دوبالا کر دیتی ہے۔ بے حساب روٹیاں اور ان گنت سپلیاں ہوسٹل والے کی قسمت میں لکھی ہوتی ہیں۔ یہاں سپلی سے مراد تعلیمی سپلی ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
لذت کام ودہن کی اس قربانی سے گزریں تو اور کئی مقتل آپ کی راہ تک رہے ہوتے ہیں۔تقریباً 60 طلبا کے لئے 8 غسل خانے۔یااللہ ساڑھے سات افراد کیسے بیک وقت ایک غسلخانہ استعمال کرسکتے ہیں ۔ واش بیسن پر آپ نے صابن رکھا اور ساتھ والے نے مسکراتے ہوئے اسے ہاتھ میں لے کر کھردری لکٹری جیسے ہاتھوں پررندے کی طر ح کہنیوں تک رگڑ لیا۔

دس بارہ لوگوں کی مسکراہٹوں کے بعد صابن اپنے لفافے سے بھی پتلا ہو جاتا ہے۔آپ نے ابھی ٹوتھ پیسٹ کے ڈھکنے کو بند نہیں کیا کہ ایک مانوس چہرے پر التجائی مسکراہٹ نے ٹوتھ پیسٹ آپکے ہاتھ سے پکڑ لیا بلکہ جکڑ لیا۔اب کہاں تو وہ موصوف بچپن سے آج صبح تک سامنے کے چار دانت ہی صاف کیا کرتے تھے اور آج 32دانتوں کی اندر باہر سے صفائی ہو رہی ہے۔

چند لمحوں بعد ہی ٹوتھ پیسٹ کی ٹیوب تپ دق کے مریض یا دوسری جنگ عظیم کے جاپانی قیدی کی طرح ہو جاتی ہے۔آپکے ماتھے کی شکنیں تعد اد اور گہرائی میں اس ٹیوب پر پڑنے والی شکنوں کا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔غسل سے فارغ ہو کر جب آپ کمرے میں واپس آتے ہیں تو اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ کسی نے آپ کے جسم سے لپٹا تولیہ ہی نہیں مانگ لیا۔کیونکہ ہوسٹل میں بے تکلفی انتہا کو چھوتی ہے تو دلوں میں جذبہ ایثار بھی پیچھے نہیں رہتا۔

صابن دانی میں چپکی صابن کی پرت اور نچڑی ہوئی ٹیوب کو گواہ بنا کر آپ خود سے وعدہ لیتے ہیں کہ آئندہ ان چیزوں پر پیسے نہیں خرچ کریں گے۔ آپ کاخود آگہی کا یہ سفر شروع ہو چکا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ آپ نے خود کو لاحق خطروں سے آگا ہ کر لیا ہے اگلی صبح جب آپ صابن دانی کا یہ چراغ سحری ہاتھ میں لے کر نکلیں گے۔

تو آپ ان درویشوں اور فاقہ مستوں کی صف میں کھڑے ہوں گے جو مسکراہٹ کے ہتھیار سے دوسروں کی صابن دانی سے صابن ہتھیا لیتے ہیں ۔ مانگے ہوئے صابن سے جس محبت کا اظہار یار لوگ کرتے ہیں اس کا ثبوت اس وقت ملتا ہے کہ جب کبھی اچانک شاور کی آواز بند ہوتی ہے۔

اور اندر سے سفید براق بھوت جس کی کالی آنکھوں کے گھومتے ڈھیلے اس کی سامنے کی سمت کی نشاندہی کر رہے ہوتے ہیں صابن کے بلبلوں میں ملبوس یہ کہتا ہو ا بھاگتا نظر آتا ہے کہ نیچے چلو پانی ختم ہو رہا ہے۔ اور صحرائوں اور دریائوں کو ٹھوکر سے دو نیم کرنے والے نوجوان ٹھوکریں کھاتے افتاں و خیزاں، پانی کی رفتار سے تیز گرائونڈ فلور پر پہنچ کر اس نعمت کو زمین میں جذب ہونے سے پہلے جا لیتے ہیں۔

جسے آپ نے سفید بھوت سمجھا تھا وہی کالا شخص ہے جس نے کسی دوسرے کے صابن کواس خیال سے اتنا استعمال کیا کہ شاید وہ کورپر بنی تصویر جیسا نازک اندام بن جائے گا۔ یہ ویسی ہی معصوم خواہش ہے کہ کریلا چاہے کہ گل ِنرگس بن جائے اور گینڈا چاہے کہ اس کی جِلد ہرن جیسی ہو جائے ، مچھلی تو ساری عمر بھی پانی میں رہے تو اسکی بو نہیں جاتی۔
 

شمشاد

لائبریرین
دوسروں کی چیزیںاستعمال کرنے کے حوالے سے ایک مدت تک روم میٹ آپس میں کھنچے کھنچے سے رہتے ہیں۔ لیکن بعد کا زمانہ مکمل اشتراک کا زمانہ ہوتا ہے۔ یہاں مدت سے مراد شروع کے پندرہ دن اور بعد کے زمانے سے سولہویں دن سے ابد تک کا وقت مراد ہے۔ بے تکلفی کا سفر عموماً بتدریج طے ہوتا ہے۔ لیکن ہوسٹل میںاسکی نشوونما بیکٹریا کی طرح ہوتی ہے، یعنی گھنٹوں کے لحاظ سے۔

ابتدائی دنوںمیں سب نے اپنے اپنے کپڑے سلیقے سے اپنی الماریوں میں لٹکائے ، کتابیں اور قلمدان میز پر سجائے ۔ آپ نے ٹرنک میں سے میٹھی ٹکیوں کا شیشے کا جار جو آپ کے گھر والوں کی محبت اور سونف کی خوشبو سے معمور ہے الماری میں سامنے رکھا۔ اخلاقاً ہر روم میٹ کو ایک ایک ٹکیا دی۔ سب نے بے حد تعریف کی ، کسی کو اپنی والدہ کے ہاتھ کے کھانے یاد آئے اور آنکھیں جھلملانے لگیں۔

اگلی شام قریبی کمروں کے احباب بھی اس تبرک کو چکھنے اور اپنی اپنی والدہ کو یاد کرنے حاضر ہو گئے۔ اس سے اگلی شام آپ کی الماری اور جار تو جذباتی اور نباتاتی خوشبو سے لبریز ہے پر جار سے روشنی آر پار ہو رہی ہے۔ رہ گیا الماری کا تالا تو یہ آہنی ڈھکوسلہ تو شرفا کے لیے حدود کی نشاندہی ہے حلقۂ یاراںمیں تو یہ ابریشم کی طرح نرم ہوتا ہے۔

بھائی چارے کا لفظ اس حوالے سے بر محل ہے کہ اگلی بار گھر سے واپسی پر آپ یہ چارہ ساتھ نہیں لائیں گے۔ جسے کھا کر آپ کے دوست کہہ سکیں یہ تو میری امی بھی بناتی ہیں اور مائیں تو سب کی سانجھی ہوتی ہیں وغیرہ وغیرہ۔

ابھی ایک ماہ نہیں گزرے گا کہ دروازے سے ایک ہانپتی آواز آئے گی یار کسی کے پاس نیلی شرٹ ہے۔ آپ کہتے ہیں نیلی نہیں کالی ہے، وہ کہتا ہے جلدی دے یار! دیر ہو رہی ہے۔ آپ اٹھتے ہیں تو آپ کا روم میٹ کہتا ہے یار میری ا لماری سے نکال لے میں نے کل تیری شرٹ پہنی تھی۔ یار دیر نہ کرو ابھی میں نے کسی سے پینٹ بھی مانگنی ہے۔

آپ حیرت سے سوچتے ہیں کہ یہ لوگ گھر سے پتے باندھ کر آئے تھے یا رات کے اندھیرے میں سفر کرکے یہاں پہنچے تھے۔ پہلا سمسٹر ختم ہونے سے پہلے ہر ایک الماری مختلف لوگوں کے کپڑوں سے آراستہ ہوتی ہے۔آپ اور آپ کے دوست کپڑے اور جوتے خریدتے ہوئے دوسروں کی پسند اور کمرے میں پہلے سے موجود کپڑوں کے رنگ کا خیال رکھتے ہیں تاکہ بدل بدل کر ایک دوسرے کی چیزیں استعمال کر سکیں۔
 
Top