آئینہ خوب جو دنیا کو دِکھایا جاتا--------------برائے اصلاح

الف عین
محمد خلیل الرحمٰن
محمّد احسن سمیع :راحل:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(اسی زمین میں ایک اور غزل)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آئینہ خوب جو دنیا کو دِکھایا جاتا
ہم کو مجرم نہ زمانے میں بنایا جاتا
----------
وہ بھٹکتے نہ کبھی رہ سے تلاشِ حق میں
راستہ رب کا اگر ان کو دکھایا جاتا
----------یا
ان کو رستہ جو مرے رب کا دکھایا جاتا
-----------------
آج کمزور نہ ہوتے یہ ہمارے رشتے
خوب مضبوط اگر ان کو بنایا جاتا
------------
آج توقیر زمانے میں ہماری ہوتی
ہم کو اخلاق نبی کا جو سکھایا جاتا
----------------
تیز آندھی سے کبھی گھر نہ ہمارے گرتے
ان میں سامان جو ناقص نہ لگایا جاتا
------------یا
ان کو پہلے ہی جو مضبوط بنایا جاتا
------------
آج مقروض نہ ہوتے یوں زمانے بھر کے
گر خزانے کو نہ اپنوں میں لٹایا جاتا
---------
ہم نے دشمن ہی بنائے ہیں زمانے بھر میں
دوست اپنا جو زمانے کو بنایا جاتا
-------------
یوں بدن آج نہ گرمی سے ہمارے جلتے
ہر طرف خوب درختوں کو اگایا جاتا
-------------
بن کے مومن جو زمانے کو دکھاتے ارشد
پھر ہی دنیا کو بھی اسلام سکھایا جاتا
------------
 

الف عین

لائبریرین
اب ماشاء اللہ بہت بہتر کہہ رہے ہیں ارشد
دوسرے شعر میں دوسرا متبادل بہتر ہے اور آندھی والے شعر میں بھی۔ لیکن دو اشعار مضبوط بن جاتے ہیں، دونوں میں سے ایک ہی رکھو
یوں بدن آج نہ گرمی سے ہمارے جلتے
ہر طرف خوب درختوں کو اگایا جاتا
------------- دوسرے مصرعے میں اگر/جو کی کمی ہے
بن کے مومن جو زمانے کو دکھاتے ارشد
پھر ہی دنیا کو بھی اسلام سکھایا جاتا
------------ دوسرے مصرعے میں 'ہی' سے روانی متاثر ہوتی ہے
باقی اشعار درست ہیں
 
Top