آؤ دوستی کریں

نوید ناظم

محفلین
یہ زندگی ہماری ہے مگر ہم اپنی زندگی کے خالق نہیں ہیں۔ ہم صرف آرزوئیں تخلیق کرتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ ہر آرزو کا پورا ہو جانا ممکن نہیں ہے۔ ہم جو چہرہ لے کر پیدا ہوتے ہیں ساری زندگی اُسی چہرے کے ساتھ بسر کرنا پڑتی ہے۔۔۔ ہمارے ماں باپ ہمیشہ کے لیے ہمارے ماں باپ ہیں۔ بہن بھائی، رشتہ دار، ملک، شہر اور محلہ یہ سب کچھ پہلے سے موجود ہوتا ہے اور تا دمِ آخر یہ سب کچھ ہم سے اور ہم اس سے جُڑے رہتے ہیں۔ انسان گاؤں سے نکلتا ہوا خلاؤں تک پہنچ جاتا ہے مگر اُس کا خمیر جس مٹی سے ہے، اُسی کا رہتا ہے۔ کوئی انسان پی ایچ ڈی کر کے یہ نہیں کہہ سکتا ہے کہ ایک ان پڑھ باپ اب اس کا باپ نہیں رہا۔ ایک امیر آدمی یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ بھائی جو غریب ہے، اب اُس کا بھائی نہیں۔ کوئی پارسائی ایسی نہیں جو انسان کو گناہ گار رشتہ داروں سے ترکِ تعلق پر مجبور کر دے۔ وہ رشتے یا واقعات جو انسان کی زندگی میں انسان کے آنے سے پہلے موجود تھے، ان کا احترام لازم ہے کیونکہ یہ سب خالق کے حوالے سے ہیں۔ یہ کسی اور کا فیصلہ ہے جو ہمارے فیصلوں پر صادر ہے۔ اگر بات صرف ہماری ہوتی تو ہماری بات اور ہے۔۔۔۔۔ انسان تو بڑی مشکل سے دوست بناتا ہے اور بڑی آسانی کے ساتھ چھوڑ دیتا ہے۔ شکر ہے کہ یہ سب ہمارے بس میں نہیں ورنہ انسان کپڑوں کی طرح رشتے بھی روز بدلتا۔
ہمیں جس چیز کو بدلنے کی ضرورت ہے وہ ہمارا اندازِ فکر ہے۔ ایک شخص امیر ہونا چاہتا ہے' اُسے سوچنا چاہیے کہ وہ امیر کیوں ہونا چاہتا ہے' کیا امیر ہو جانا کامیابی کی دلیل ہے؟ اگر ایسا ہے تو قارون کے بارے میں کیا خیال ہے؟ اگر بادشاہ ہی خوش ںصیب ہوتا ہے تو فرعون کو کیا کہا جائے گا؟ مگر ہم جانتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے۔۔۔۔ کامیاب تو وہی ہے جس کا انجام کامیابی ہے۔ دراصل ہمارے اندر ایک انتشار برپا ہو چکا ہے اور وہ بھی اس خطرناک حد تک کہ ہم دو منٹ اشارے پر رک جائیں تو لگتا ہے کہ دو گھنٹے سے رکے ہوئے ہیں۔ آگے بڑھنے کا جنون ہمارے اندر کا ٹھہراؤ نگل چکا ہے۔۔۔۔ درد کے عنواں اور سے اور ہوئے جاتے ہیں۔ ہم ہر وقت کچھ نہ کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔۔۔۔۔۔ اپنے لیے۔۔۔۔ اپنے بچوں کے لیے۔۔۔۔۔ بلکہ اپنی نسلوں کے لیے، مگر یہ بھول چکے ہیں کہ ہم ان کو ان کے نصیب کے سوا کچھ نہیں دے سکتے۔ ہم اپنے بچوں کو دوڑنا سکھا رہے ہیں، یہ سوچے بغیر کے وہ اس طرح ہلکان ہو جائیں گے۔ زندگی کی اپنی حدود قیود ہیں اور انھیں سمجھے بغیر کوئی انسان خوش نہیں رہ سکتا۔ حقیقت کو چھوڑ کر سراب کے پیچھے بھاگنے والا بھلا کیسے خوش رہ سکتا ہے۔ سراب یہ ہے کہ مال جمع کرنے سے خوشی حاصل ہو گی، حقیقت یہ ہے کہ مال تقسیم کرنے سے خوشی ملے گی۔ ہم نے 'حاصل' کو زندگی سمجھ لیا ہے اور یوں زندگی کے لطف سے محروم ہو گئے۔ ہمارے اندر کا انسان دم توڑتا جا رہا ہے' اسے ایثار ہی سے بچایا جا سکتا ہے۔ اسے ہماری ضرورت ہے، ہماری محبت کی ضرورت ہے۔ ہماری مشکلیں حل ہو سکتی ہیں۔۔۔۔۔ شرط یہ کہ ہم اپنے اندر رہنے والے انسان سے دوستی کر لیں۔
 
آخری تدوین:
ہم صرف آرزوئیں تخلیق کرتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ ہر آرزو کا پورا ہو جانا ممکن نہیں ہے۔
انسان کتنا پاگل ہےیہ جانتے ہوئے بھی کہ خواہشات رنگین تتلیوں کی طرح ہوتی ہیں جن کے رنگ آنکھوں کو بھلے لگتے ہیں مگر ان رنگوں کو زندگی کے کینوس پر منتقل کرنا اتنا آسان نہیں پھر بھی وہ اس کوشش کو کامیاب کرنے کے لیے اپنے وجود کو زخم زخم کرکے چھوڑتا ہے۔۔
ایک شخص امیر ہونا چاہتا ہے' اُسے سوچنا چاہیے کہ وہ امیر کیوں ہونا چاہتا ہے' کیا امیر ہو جانا کامیابی کی دلیل ہے؟ اگر ایسا ہے تو قارون کے بارے میں کیا خیال ہے؟ اگر بادشاہ ہی خوش ںصیب ہوتا ہے تو فرعون کو کیا کہا جائے گا؟
اگرچے امیر ہونا کامیابی کی دلیل نہیں لیکن زندگی بڑی شرمندہ کروانے والی چیز ہے آپ میں یا کوئی بھی ہم سب ایک ہی جھولے میں سوار ہیں اور کوئی بھی اس میں سے اترنا نہیں چاہتا کیونکہ نیچے کھڑے ہو کر دوسروں کو آسمان تک پہنچتے دیکھنا بڑا صبر آزما اور تکلیف دہ کام ہے۔۔۔
ہم نے 'حاصل' کو زندگی سمجھ لیا ہے اور یوں زندگی کے لطف سے محروم ہو گئے۔ ہمارے اندر کا انسان دم توڑتا جا رہا ہے'
بالکل،اور کبھی کبھی ساری زندگی گزارنے کے بعد بھی ہم یہ نہیں جان پاتے کہ ہمیں زندگی میں آخر کس چیز کی ضرورت تھی، ضرورت تھی بھی یا نہیں اور کبھی کبھی ساری زندگی گزارنے کے بعد ہمیں احساس ہوتا ہے کہ زندگی میں ہم نے جو کچھ بھی پایا زندگی تو اس کے بغیر بھی گزر سکتی تھی
 

محمداحمد

لائبریرین
آپ کی تحریر میں ایک ہی طویل و عریض پیرگراف دیکھ کر پڑھنے کو روح نہیں کرتی۔ :) :) :)

بغیر پڑھے داد دیں گے نہیں ! :p

دیکھیں کب ہماری طبیعت مائل ہوتی ہے۔ :) :) :)
 

نوید ناظم

محفلین
آپ کی تحریر میں ایک ہی طویل و عریض پیرگراف دیکھ کر پڑھنے کو روح نہیں کرتی۔ :) :) :)

بغیر پڑھے داد دیں گے نہیں ! :p

دیکھیں کب ہماری طبیعت مائل ہوتی ہے۔ :) :) :)
جی کیوں نہیں' ضرور دیکھیں گے۔۔۔۔۔ اصل میں ہمی سے نو من تیل اکٹھا نہیں ہو پاتا ورنہ رادھا کی طبعیت اتنی ناساز بھی نہیں کہ۔۔۔:)
 

نور وجدان

لائبریرین
آخری بات کچھ لطف دیے گئی وگرنہ امید آپ کے تیشے سے زیادہ کی ہونے لگی ہے کہ لفظوں سے نوید ملے، یہ لفظ امانت ہے قاری تک پہنچتے ہیں! جو بات باعث مسرت ہے وہ یہ کہ دنیا کوئی مسئلہ نہیں گر اندر والے سے دوستی ہو جائے، بات محدود سے لامحدود ہو جائے گی، فرقے، رنگ، نسل، تفریق ختم ہوجائے گی، اس کی تفریق کے قوانین سمجھ آنے لگیں، شکوے و ملال مٹ جائیں گے! مسئلے حل نہیں ہوں گے کہ مسئلے تھے ہی نہیں! یہ دکھاوا تھا غالب نظر کا جو انجانی سمت سے دور موت کی حقیقت سے نابلد کیے دے رہا تھا گرچہ مومن تو موت کو ہمہ وقت ساتھ رکھتا ہے یہاں تک کہ ایمان کی تکمیل آزمائش سے پاتا ہے! نوید صاحب آپ کو اللہ نوازے بے حد کہ آپ کی بے نیازی ہمیں اچھی لگتی ہے! اسی طرح رہیے!
 

نوید ناظم

محفلین
انسان کتنا پاگل ہےیہ جانتے ہوئے بھی کہ خواہشات رنگین تتلیوں کی طرح ہوتی ہیں جن کے رنگ آنکھوں کو بھلے لگتے ہیں مگر ان رنگوں کو زندگی کے کینوس پر منتقل کرنا اتنا آسان نہیں پھر بھی وہ اس کوشش کو کامیاب کرنے کے لیے اپنے وجود کو زخم زخم کرکے چھوڑتا ہے۔۔
اگرچے امیر ہونا کامیابی کی دلیل نہیں لیکن زندگی بڑی شرمندہ کروانے والی چیز ہے آپ میں یا کوئی بھی ہم سب ایک ہی جھولے میں سوار ہیں اور کوئی بھی اس میں سے اترنا نہیں چاہتا کیونکہ نیچے کھڑے ہو کر دوسروں کو آسمان تک پہنچتے دیکھنا بڑا صبر آزما اور تکلیف دہ کام ہے۔۔۔
بالکل،اور کبھی کبھی ساری زندگی گزارنے کے بعد بھی ہم یہ نہیں جان پاتے کہ ہمیں زندگی میں آخر کس چیز کی ضرورت تھی، ضرورت تھی بھی یا نہیں اور کبھی کبھی ساری زندگی گزارنے کے بعد ہمیں احساس ہوتا ہے کہ زندگی میں ہم نے جو کچھ بھی پایا زندگی تو اس کے بغیر بھی گزر سکتی تھی
خوشی ہوئی کہ آپ نے زندگی کے زاویوں پر غور کیا اور اپنا تجزیہ شئیر کیا ہمارے ساتھ ۔
 

نوید ناظم

محفلین
آخری بات کچھ لطف دیے گئی وگرنہ امید آپ کے تیشے سے زیادہ کی ہونے لگی ہے کہ لفظوں سے نوید ملے، یہ لفظ امانت ہے قاری تک پہنچتے ہیں! جو بات باعث مسرت ہے وہ یہ کہ دنیا کوئی مسئلہ نہیں گر اندر والے سے دوستی ہو جائے، بات محدود سے لامحدود ہو جائے گی، فرقے، رنگ، نسل، تفریق ختم ہوجائے گی، اس کی تفریق کے قوانین سمجھ آنے لگیں، شکوے و ملال مٹ جائیں گے! مسئلے حل نہیں ہوں گے کہ مسئلے تھے ہی نہیں! یہ دکھاوا تھا غالب نظر کا جو انجانی سمت سے دور موت کی حقیقت سے نابلد کیے دے رہا تھا گرچہ مومن تو موت کو ہمہ وقت ساتھ رکھتا ہے یہاں تک کہ ایمان کی تکمیل آزمائش سے پاتا ہے! نوید صاحب آپ کو اللہ نوازے بے حد کہ آپ کی بے نیازی ہمیں اچھی لگتی ہے! اسی طرح رہیے!
متشکرم :)
 
Top