جوش آ، اور جہاں کو غرقِ لبِ نوش خند، کر - جوش ملیح آبادی

کاشفی

محفلین
غزل
(جوش ملیح آبادی)
آ، اور جہاں کو غرقِ لبِ نوش خند، کر
آوازہء فُسونِ جوانی بُلند کر
بَل ابروؤں پہ ڈال کے زُلفوں کو کھول دے
کونین کو اسیرِ کمان و کمند کر
سُنتا ہوں دردِ عشق ہے ہر درد کی دوا
آ، اور میرے دردِ جگر کو دوچند کر
آشُفتہ خُو طبیب ہے، نازک مزاج دل
کیوں کر کہوں علاجِ دلِ دردمند کر
گیتی کو خلفشار ہے، گردوں کو اضطراب
محوِ خرامِ ناز! درِ فِتنہ بند کر
اے خواجہ! زندگی میں اسیری ہے ناگُزیر
دل کو اسیرِ کاکُلِ مشکیں کمند کر
آیا ہے جوش تحفہء داغِ جگر لئے
مرضی تری پسند نہ کر یا پسند کر!
 
Top