نظیر اکبر آبادی

  1. فرخ منظور

    نظیر حسن اس شوخ کا اہاہاہا ۔ نظیر اکبر آبادی

    حسن اس شوخ کا اہاہاہا جن نے دیکھا کہا اہاہاہا زلف ڈالے ہے گردن دل میں دام کیا کیا بڑھا اہاہاہا تیغ ابرو بھی کرتی ہے دل پر وار کیا کیا نیا اہاہاہا آن پر آن وہ اجی او ہو اور ادا پر ادا اہاہاہا ناز سے جو نہ ہو وہ کرتی ہے چپکے چپکے حیا اہاہاہا طائرِ دل پہ اس کا باز نگاہ جس گھڑی آ پڑا اہاہاہا...
  2. فرخ منظور

    نظیر مرا خط ہے جہاں یارو وہ رشکِ حور لے جانا ۔ نظیر اکبر آبادی

    مرا خط ہے جہاں یارو وہ رشکِ حور لے جانا کسی صورت سے تم واں تک مرا مذکور لے جانا اگر وہ شعلہ رُو پوچھے مرے دل کے پھپولوں کو تو اس کے سامنے اِک خوشۂ انگور لے جانا جو یہ پوچھے کہ اب کتنی ہے اس کے رنگ پر زردی تو یارو تم گلِ صد برگ با کافور لے جانا اگر پوچھے مرے سینے کے زخموں کو تو اے یارو کہیں سے...
  3. فرخ منظور

    نظیر نگہ کے سامنے اس کا جونہی جمال ہوا ۔ نظیر اکبر آبادی

    نگہ کے سامنے اس کا جونہی جمال ہوا وہ دل ہی جانے ہے اس دم جو دل کا حال ہوا اگر کہوں میں کہ چمکا وہ برق کی مانند تو کب مثل ہے یہ اس کی جو بے مثال ہوا قرار و ہوش کا جانا تو کس شمار میں ہے غرض پھر آپ میں آنا مجھے محال ہوا ادھر سے بھر دیا مے نے نگاہ کا ساغر ادھر سے زلف کا حلقہ گلے کا جال ہوا...
  4. فرخ منظور

    نظیر کیا دن تھے وہ جو واں کرمِ دلبرانہ تھا ۔ نظیر اکبر آبادی

    کیا دن تھے وہ جو واں کرمِ دلبرانہ تھا اپنا بھی اس طرف گزر عاشقانہ تھا مل بیٹھنے کے واسطے آپس میں ہر گھڑی تھا کچھ فریب واں تو ادھر کچھ بہانہ تھا چاہت ہماری تاڑتے ہیں واں کے تاڑ باز تس پر ہنوز خوب طرح دل لگا نہ تھا کیا کیا دلوں میں ہوتی تھی بن دیکھے بے کلی ہے کل کی بات حیف کہ ایسا زمانہ تھا...
  5. فرخ منظور

    نظیر دیا دل تو پھر عہد و پیمان کیسا ۔ نظیر اکبر آبادی

    دیا دل تو پھر عہد و پیمان کیسا لیا جس نے اس کا احسان کیسا جہاں زلف کافر میں دل پھنس گیا ہے تو واں دین کیسا اور ایمان کیسا ادا نے کیا دل کو پہلو میں بے کل کرے گی ستم دیکھیے آن کیسا ادھر کاجل آنکھوں میں کیا کیا کھلا ہے ملا ہے مسی سے ادھر پان کیسا نظیر اس سے ہم نے چھپایا جو دل کو تو ہنس کر کہا...
  6. فرخ منظور

    نظیر رہوں کاہے کو دل خستہ پھروں کاہے کو آوارا۔ نظیر اکبر آبادی

    رہوں کاہے کو دل خستہ پھروں کاہے کو آوارا اگر آں ترک شیرازی بدست آرد دلِ مارا خدا گر مجھ گدا کو سلطنت بخشت تو میں یارو بہ حالِ ہندوش بخشم سمرقند و بخارا را ہم اپنا تو بہشت و چشمۂ کوثر سمجھتے ہیں کنار آب رکنا باد و گلگشت مصلیٰ را زمیں پر آیا جب یوسف اسی دن آسماں رویا کہ عشق از پردۂ عصمت بروں...
  7. فرخ منظور

    نظیر وہ مجھ کو دیکھ کچھ اس ڈھب سے شرمسار ہوا ۔ نظیر اکبر آبادی

    وہ مجھ کو دیکھ کچھ اس ڈھب سے شرمسار ہوا کہ میں حیا ہی پر اس کی فقط نثار ہوا سبھوں کو بوسے دئیے ہنس کے، اور ہمیں گالی ہزار شکر! بھلا اس قدر تو پیار ہوا ہمارے مرنے کو، ہاں، تم تو جھوٹ سمجھے تھے کہا رقیب نے، لو، اب تو اعتبار ہوا قرار کر کے نہ آیا وہ سنگ دل کافر پڑیں قرار پہ پتھر، یہ کچھ قرار ہوا...
  8. محمد وارث

    نظیر غزل - ملا آج وہ مجھ کو چنچل چھبیلا - نظیر اکبر آبادی

    ملا آج وہ مجھ کو چنچل چھبیلا ہوا رنگ سُن کر رقیبوں کا نیلا لیا جس نے مجھ سے عداوت کا پنجہ سنلقی علیہم عذاباً ثقیلا نکل اس کی زلفوں کے کوچہ سے اے دل تُو پڑھنا، قم اللّیلَ الّا قلیلا کہستاں میں ماروں اگر آہ کا دم فکانت جبالاً کثیباً مہیلا نظیر اس کے فضل و کرم پر نظر رکھ فقُل، حسبی اللہ نعم...
  9. فرخ منظور

    نظیر نظم ۔ کل جُگ از نظیر اکبر آبادی

    کل جُگ دنیا عجب بازار ہے کچھ جنس یاں کی ساتھ لے نیکی کا بدلہ نیک ہے بد سے بدی کی بات لے میوہ کھلا میوہ ملے پھل پھول دے پھل پات لے آرام دے آرام لے دُکھ درد دے آفات لے کلجُگ نہیں کرجگ ہے یہ یاں دن کو دے اور رات لے کیا خوب سودا نقد ہے اِس ہات دے اُس ہات لے کانٹا کسی کے مت لگا گو مثل...
  10. رضوان

    نظیر اکبر آبادی

    جب آدمي کے پيٹ ميں جاتي ہيں روٹياں پھولے نہيں بدن ميں سماتي ہيں روٹياں آنکھيں پري رخوں سے لڑاتي ہيں روٹياں سينہ اپر بھي ہاتھ جلاتي ہيں روٹياں جتنے مزے ہيں سب يہ دکھاتي ہيں روٹياں روٹي سے جس کا ناک تلک پيٹ ہے بھرا کرتا پھرتا ہے کيا وہ اچھل کود جا بجا ديوار پھاند کر کوئي کوٹھا اچھل گيا...
  11. ف

    روٹیاں

    نظیر اکبرابادی کے چند اشعار : جب آدمي کے پيٹ ميں جاتي ہيں روٹياں پھولے نہيں بدن ميں سماتي ہيں روٹياں آنکھيں پري رخوں سے لڑاتي ہيں روٹياں سينہ اپر بھي ہاتھ جلاتي ہيں روٹياں جتنے مزے ہيں سب يہ دکھاتي ہيں روٹياں روٹي سے جس کا ناک تلک پيٹ ہے بھرا کرتا پھرتا ہے کيا وہ اچھل کود جا بجا...
Top