نوشی

  1. ظ

    نوشی گیلانی لانگ ڈیسٹنس کال ( نظم )

    “ بہت برفاف موسم ہے ہوائیں برف رُت کی شال اوڑھے بند کمرے میں پناہیں ڈھونڈتیں ہیں یہ کمرہ جس میں ہیٹر چل رہا ہے اور بدن سارے کا سارا برف کی سل بن گیا ہے بدن کی حدتیں اب اک غبار آلود خواہش کی طرح گم ہو رہیں ہیں‌ مگر اس منجمد شب میں جہاں پر ذہن سُن ہو اور پوریں بےحس و حرکت وہاں...
  2. زونی

    نوشی گیلانی خواب کے قیدی رہے تو (نوشی گیلانی)

    خواب کے قیدی رہے تو کچھ نظر آتا نہ تھا جب چلے تو جنگلوں میں راستہ بنتا گیا تہمتیں تو خیر قسمت تھیں مگر اس ہجر میں پہلے آنکھیں بجھ گیئں اور اب چہرہ گیا ہم وہ محرومِ سفر ہیں دشتِ خواہش میں جنہیں اک حصارِ درو دیوار میں رکھا گیا بر ملا سچ کی جہاں تلقین کی جاتی رہی پھر وہاں جو لوگ...
  3. سارہ خان

    نوشی گیلانی محبت کی اسیری سے رہائی مانگتے رہنا - نوشی گیلانی

    محبت کی اسیری سے رہائی مانگتے رہنا محبت کی اسیری سے رہائی مانگتے رہنا بہت آساں نہیں ہوتا جدائی مانگتے رہنا ذرا سا عشق کر لینا،ذرا سی آنکھ بھر لینا عوض اِس کے مگر ساری خدائی مانگتے رہنا کبھی محروم ہونٹوں پر دعا کا حرف رکھ دینا کبھی وحشت میں اس کی نا رسائی مانگتے رہنا وفاؤں کے تسلسل...
  4. امیداورمحبت

    نوشی گیلانی تتلیاں پکڑنے کو - از نوشی گیلانی

    نوشی گیلانی تتلیاں پکڑنے کو۔ ۔ ۔ ۔ ۔“ کتنا سہل جانا تھا خوشبوؤں کو چھو لینا بارشوں کے موسم میں شام کا ہرایک منظر گھر میں قید کر لینا روشنی ستاروں کی مٹھیوں میں بھر لینا کتنا سہل جانا...
  5. فرذوق احمد

    نوشی گیلانی اداس شام کی ایک نظم

    اداس شام کی ایک نظم وصال ُرت کی یہ پہلی دستک ہی سرزنش تھی کہ ہجر موسم نے رستے رستے سفر کا آغاز کیا تمہارے ہاتھوں کالمس جب میری وفا کی ہتھیلوں پر حنا بنے گا تو سوچ لو گی رفاقتوں کا سنہرا سورج غروب کے امتحان میں ہمارے باغوں سے سے گر کبھی تتلیوں کی خوشبو نہ گزر پائے تو یہ نہ کہنا...
  6. اسماء

    نوشی گیلانی محبتیں جب شمار کرنا - - - نوشی گیلانی

    محبتیں جب شمار کرنا - - - نوشی گیل محبتیں جب شمار کرنا تو سازشیں بھی شمار کرنا جو میرے حصے میں آئی ہیں وہ اذیتیں بھی شمار کرنا جلائےرکھوں گی صبح تک میں تمھارے رستےمیں اپنی آنکھیں مگر کہیں ضبط ٹوٹ جائے تو بارشیں بھی شمار کرنا جو حرف لوحِ وفا پہ لکھے ہوئے...
  7. شعیب صفدر

    نوشی گیلانی گریز شب سے سحر سے کلام رکھتے تھے۔ نوشی گیلانی

    گریز شب سے سحر سے کلام رکھتے تھے کبھی وہ دن تھے کہ زلفوں میں شام رکھتے تھے تمھارے ہاتھ لگے ہیں تو جو کرو سو کرو وگرنہ تم سے تو ہم سو غلام رکھتے تھے ہمیں بھی گھیر لیا گھر کے زعم نے تو کھلا کچھ اور لوگ بھی اس میں کلام رکھتے تھے یہ اور بات ہے ہمیں دوستی نہ راس آئی ہوا تھی ساتھ تو خوشبو مقام...
Top