نوشی گیلانی اداس شام کی ایک نظم

فرذوق احمد

محفلین
اداس شام کی ایک نظم

وصال ُرت کی یہ پہلی دستک ہی سرزنش تھی
کہ ہجر موسم نے رستے رستے سفر کا آغاز کیا
تمہارے ہاتھوں کالمس جب میری وفا کی ہتھیلوں پر حنا بنے گا
تو سوچ لو گی
رفاقتوں کا سنہرا سورج غروب کے امتحان میں
ہمارے باغوں سے سے گر کبھی تتلیوں کی خوشبو نہ گزر پائے تو یہ نہ کہنا کہ تتلیوں نے گلاب رستے بدل لیے ہیں
اگر کوئی شام یوں بھی آئے کے ہم تم لگے پرائے
تو جان لینا
کے شام بے بس تھی شب کی تاریکیوں کے ہاتھوں
تمہاری خوہش کی مٹھیاں بے دھانیوں میں کبھی کھلیں تو یقین کرنا
کہ میری چاہت کے جگنوؤں نے
تمھارے ہاتھوں کے لمس تازہ کی خوہشوں میں
بڑے گھنیرے اندھیرے کاٹے
مگر یہ خدشے ، یہ وسوسے تو تکلفاََ ہیں

ہم اپنے جذبوں کو منجمدرائیگانیوں کے سپرد کر کے
یہ سوچ لے گے
کہ ہجر موسم تو وصل کی پہلی شام سے ہی
سفر کا آغاز کر چکا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نوشی گیلانی کی یہ نظم مجھے پسند ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

دوست

محفلین
farzooq ahmed نے کہا:
یہ سوچ لے گی نہیں یہ سوچ لیں گے ہوگا جناب۔
اگرچہ بہت عجیب سا لگ رہا ہے اتنی اچھی نظم کی بجائے میں تعریف کروں املا کی غلطیاں نکال رہا ہوں تاہم یہ بھی ضروری تھا۔
ویسے نظم اچھی ہے۔اگرچہ نثری نظموں بارے حال ہی میں ایک تبصرہ پڑھا تھا کہ
“عشقیہ خطوط کے نمونے“
 

فرذوق احمد

محفلین
ارے دوست بھائی آپ کو سمجھ تو لگ گئی ہے نہ کہ میں کیا لکھا ہے ،،، بس یہی بات ہے ،کہ بندے کو سمجھ لگنی چاہیں
 
Top