@محمد احسن سمیع:راحل

  1. یاسر علی

    برائے اصلاح

    نگاہِ ناز سے وہ کہہ رہا تھا لوٹ آئوں گا بچھڑنے وقت میں نے یہ سنا تھا لوٹ آؤں گا بہت جلدی میں سویا ہوں کہ شاید پھر ملے وہ آج کہ کل شب خواب میں اس نے کہا تھا لوٹ آؤں گا کھڑا رہتا ہوں در پر اس کے استقبال کی خاطر مجھے پیغام قاصد سے ملا تھا لوٹ آؤں گا مجھے امید ہے لوٹے گا لکھ کر ایک خط اس نے...
  2. یاسر علی

    برائے اصلاح

    آنکھ ہر دم اُداس رہتی ہے یاد تیری جو پاس رہتی ہے ڈھونڈ اسکو نہ دشتِ ویراں میں دل کے وہ آس پاس رہتی ہے لبِ دریا کھڑا ہوں میں لیکن پھر بھی ہونٹوں پہ پیاس رہتی ہے پاس دولت جو آئے لوگوں کو کب کسی کی شناس رہتی ہے ایک عرصہ ہوا جدا ہوئے پر اب بھی ملنے کی آس رہتی ہے بے وفاؤں کے شہر میں میثم با...
  3. یاسر علی

    اصلاح درکار ہے

    اصلاح درکار ہے تبسم ان لبوں پر تم سجا کر سیلفی دے دو مرے نذدیک سے نذدیک آ کر سیلفی دے دو جو جاری ہے ہماری چشم سے تھم جائے وہ چشمہ اگر تم چشم پر چشمہ لگا کر سیلفی دے دو بہت ممکن ہے بارش پیار کی دل پر برس جائے مرے شانے پہ زلفیں تم گرا کر سیلفی دے دو دل۔ تشنہ کی ممکن ہے کہ ساری تشنگی ہو دور...
  4. سخن آرائی

    کھول دے ہر بند کو جو معجزائے عشق سے، برائے اصلاح

    اساتذہ کرام سے اصلاح کی درخواست کھول دے ہر بند کو جو معجزائے عشق سے پھر وہی دل ہو عطا جو پھڑپھڑائے عشق سے سن مسلسل اک ندا ہے نور کی وادی سے یہ حشر تک پہلو رہیں جو آزمائے عشق سے بہہ رہا کربل میں گر خوں سرورِ کونین کا امتحاں مقصود ہے ہر مبتلائے عشق سے یا (امتحاں لازم ہے پھر ہر مبتلائے عشق سے)...
  5. شکیل احمد خان23

    اساتذہ کرام سے اِصلاح کی درخواست ہے (شکیل احمد خان)

    کانوں میں گونجتی تری آواز کیوں رہے تارِ نفس پہ ضرب سے دل باز کیوں رہے نالے گلوں کے آگے تھے بلبل کے بے اثر حیرت ہے پھر وہ گوش بر آواز کیوں رہے شکوہ نہیں فلک سے ہمیں ہاں مگر اُفق دل کے اِن آنسوؤں کا تو غماز کیوں رہے تھی داستاں طویل ترے انتظار کی ایک ایک اشک روکا کہ ایجاز کیوں رہے۔۔یا ۔۔روکا...
  6. سخن آرائی

    برائے اصلاح

    تمام معزز اساتذہ سے اصلاح کی درخواست ہے کس آس پہ کہیے کہ ہاں اچھا یہ برس ہے جب لذتِ گریہ نہ کہیں لطفِ جرس ہے اسلاف کی میراث سے بیزار ہے امت آدابِ غلامی سے یا معمور قفس ہے گوندھا ہوا بس عشق جو تیری بنا میں ہو پھر تیرا نگہبان تجھے تیرا نفس ہے جو تجھ سے چھپا دے یہاں تیری ہی حقیقت وہ عشق نہیں عشق...
  7. شکیل احمد خان23

    اساتذہ کرام اور احباب سے اصلاح کی درخواست ہے(شکیل احمد خان)

    دِل ہے متاعِ عیب کوئی پوچھتا نہیں اب جا کسے دکھائیں ہمیں سوجھتا نہیں تو ہے جدا تو حال ہوا چشمِ تر کا یہ دریا سا اِک رواں ہے کہ جو سوکھتا نہیں الفاظ روحِ معنی سے محروم ہوگئے میں کہہ رہا ہوں یار مگر بوجھتا نہیں انداز جو تھے پہلے زمانے کے اب کہاں دیدہ وروں میں کوئی انہیں ڈھونڈتا نہیں پھنس کر...
Top