مرزا عبدالعلیم بیگ

  1. مرزا عبدالعلیم بیگ

    اُلجھن

    خُواب خُواہشات خدشے اندیشے شکوے کس کس سے پیچھا چھڑایا جائے اور کس کس سے بھاگا جائے خیالات کو جھٹکنا بھی چاہیں سینے در چلے آتے ہیں اور دل کو دبوچ لیتے ہیں سوچیں نہ بھی سوچنا چاہیں تو اندر ہی اندر روح میں پنجے گاڑ کر بیٹھ جاتی ہیں
  2. مرزا عبدالعلیم بیگ

    ضبطِ غم

    دیکھوں تو مرا سایہ بھی مجھ سے جدا ملے سوچوں تو ہر کسی سے مرا سلسلہ ملے شہرِبےوفا میں اب کوئی اہلِ وفا کہاں؟ ہم سے ملے بھی تو وہی بےوفا ملے فرصت کسے کہ جو مرے حالات پوچھے ہر شخص اپنے بارے میں سوچتا ملے کہنے کو جدا ہے مجھ سے لیکن وہ مری رگوں میں گونجتا ملے یوں بھی ملی مجھ کو ضبطِ غم کی داد جب...
  3. مرزا عبدالعلیم بیگ

    وحشت

    دلِ برباد میں اک وحشت کھڑی ہے گرد ناکامیِ زیست کی سوغات لئے مرے دل کی اُداسی یونہی بے سبب تو نہیں؟ تم نے سمجھا ہوتا شکستہ دل کی اجڑی ہوئی داستان کو ہم کو مدت ہوئی رستہ رستہ گردشیں کاٹتے ہم تو باز آئے کسی اُمید سے، ایسی خوش گمانی سے کیا رسمِ مہر و وفا کی ساری کہانیاں بھلا جھوٹ ہیں؟
  4. مرزا عبدالعلیم بیگ

    تری سُہاؤنی خوشبو

    رُوح کے ویراں زمانوں سے کہیں رات چُپکے چُپکے سفر کرتی تری سُہاؤنی خوشبو چلی آتی ہے دلِ وحشی کا تلاطم ٹھہر جاتا ہے نیند درخشاں ستارے کی طرح آنکھ سے دُور آسمانوں میں اٹک جاتی ہے اور پھر پھیلتا جاتا ہے لفظوں کا فسوں خوابوں کی دستک کا انتظار آوارہ ہواؤں کی صدائیں گزرے لمحوں کی یادیں اور پھر ساری...
  5. مرزا عبدالعلیم بیگ

    میں سوچ رہا ہوں تو بس یہ کہ

    رات کے گہرے سائے میں اپنے سائے سے گھبرا کے تنہا گھر کے آنگن میں بے چین، بے بس آسمان کو کب سے دیکھ رہا ہوں دل کے درودیوار کو رنج و غم کی دیمک چاٹ رہی ہے میں سوچ رہا ہوں تو بس یہ کہ رُوز اپنے محور پر گھومتی ہے زمین اسی طرح سر اُٹھائے کھڑا ہے فلک اسی طرح پیچھے لگی ہیں دنوں کے راتیں اسی طرح لمحوں...
  6. مرزا عبدالعلیم بیگ

    تیری یاد

    خُدا جانے کیوں تیری یاد بہت بیمار تھی گزشتہ رات ساری رات اُس کے ماتھے پر ٹھنڈے پانی کی پٹی رکھ کر پاوٴں دبا کر، ہاتھ سہلا کر سینے کی گرمائش پہنچا کر بُوسہ دے کر، ماتھا چُوم کر بہت کوشش کی زندہ رکھنے کی لیکن! رخصت ہونے سے پہلے آخری ہچکی لے کر یوں خاموش ہوئی کہ جیسے مجھ سے آشنا ہی نہیں
  7. مرزا عبدالعلیم بیگ

    کیا ہوا جو میں تنہا رہ گی

    آنکھ میں بس تماشہ رہ گیا خواب تھا جو ادھورا رہ گیا تیرا شہر تو ثابت ہوا شہرِخرافات دھوپ سے الجھا ہوا سایہ رہ گیا کھلکھلا کریوں پیچھے ہٹی بادِ نسیم اک واقعہ ہوتے ہوتے رہ گیا آہی گئے برسات کے دن لوٹ کر تیرے چہرے کا رنگ کچا رہ گیا راستے اک دوجے سے یوں جدا ہوئے دل میں فقط ملن کا نقشہ رہ گیا شام کا...
  8. مرزا عبدالعلیم بیگ

    ہجر کی اداسی

    بے رنگ دن بے موج شام تیرے سب نشان میرے اردگرد بکھرے بکھرے دھڑکن سے ہر اک سانس تک میری خاموشی سینے میں گونج رہی ہے سب حادثے جو دل کی تہہ میں ہیں اُن کو بھلاوٴں کس طرح؟ حبس گھٹتا ہی نہیں بھلا کب تلک میں تیرے دھیان کو اپنی روح میں بسا کر تجھ سے گفتگو کرتا رہوں؟ سانس سانس میں میری اک بے بسی سی ہے اک...
  9. مرزا عبدالعلیم بیگ

    نیا پاکستان

    زباں نہ کھول اے دل کسی سے کچھ نہ بول یہ حسین جگمگاہٹیں یہ جھومتی زمیں سچ کتنا‘ کتنا جھوٹ رکھ سبھی کی لاج زباں نہ کھول‘ کچھ نہ بول سزا کا حال سنا‘ نا جزا کی بات کر خفا بھی نہ ہو‘ انہیں پتہ بھی چلے اس احتیاط سے مدعا بیان کر ہر دور کا خدا نیا مذہب لایا! ملا ہو تجھے‘ تو خدا کی بات کر! زباں نہ کھول...
  10. مرزا عبدالعلیم بیگ

    زندگی کے نام اک پیغام ۔۔۔

    ہمارے بیتے ہوئے کل کا کوئی جسم نہیں ہوتا، لیکن اس کی موجودگی کا احساس ہمارے آج کو جھنجھوڑ دیتا ہے! غلطی کس کی تھی مجھے نہیں معلوم، ہاں مجھے تو بیچ میں آنا ہی تھا۔ معلوم نہیں لیکن ابھی بھی آنکھوں میں چُبتی ہو، اچھی لگتی ہو، منفرد لگتی ہو، اپنی لگتی ہو۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ وقت آگے بڑھ رہا...
  11. مرزا عبدالعلیم بیگ

    تیری یاد کے سہارے بسر زندگی ساری

    گردن کا طوق پاؤں کی زنجیر ہجر کا پتھر رُوٹھی بارش سُوکھا دریا مقدر کی دھوپ سایہء دیوار لوٹ آنے کا یقین اک لمحہِ فرقت اک غمِ قیامت اک خواب زیارت اک نقش تصور اک وہم حقیقت اک دورِ قیامت اک زخم اذیت اک چہرہ فیضِ رساں اک نام تہمت بے انتہا تنہائی سحر تنہائی شام تنہائی رات تنہائی آب و ہوا تنہائی...
  12. مرزا عبدالعلیم بیگ

    وقتِ قبولیت

    وقتِ قبولیت ہے یہ ہاتھ اُٹھتے ہیں دعا کے لئے ضبطِ غم تھم گیا حوصلہ اور بڑھ گیا خوابِ وصل آنکھوں میں لئے شامِ ہجراں ڈھلنے کو ہے سانس رُکنے لگی ہے اب دل ڈھڑکنے لگا ہے اب مایوس نہ ہو‘ اُمید کی جلو میں ختم ہونے کو ہے ستم شاید محبت کا تو ہے یہ دستور تو مجھ سے‘ میں تجھ سے دور تیرے ہجر کی اداسیوں میں...
  13. مرزا عبدالعلیم بیگ

    ناشناس

    رات سنسان ہے بوجھل ہیں فضا کی سانسیں آنکھوں میں چبھتی ہے تاروں کی چمک ذہن سلگتا ہے تنہائی میں روح پر چھاگئے ہیں غموں کے سائے دل بضد ہے کہ تم آؤ تسلی دینے میری کوشش ہے کہ کمبخت کو نیند آئے تم میرے پاس نہیں پھر بھی سحر ہونے تک! تیری ہر سانس میرے جسم کو چھو کر گزرے تیری خوشبو سے معطر‘ لمحہ لمحہ...
  14. مرزا عبدالعلیم بیگ

    اسیرِغم

    کئی دن سے اداس سا پاتا ہوں خود کو خدا جانے کون سے صدمے اٹھارہا ہوں میں خاموشی میں چھپا کے اپنی بے چینی حسرت سے ہر چیز دیکھتا جارہا ہوں میں میری امیدیں مٹ گئیں تو مٹنے دو میری زیست کی غمگینیوں کا غم نہ کرو مجھے شکایت کیوں ہو تمہارے تغافل سے؟ مجھے جدائی کا تمہاری کوئی غم نہیں؟ میرے خیال کی دنیا...
  15. مرزا عبدالعلیم بیگ

    عہدِ وفا

    بس اب وہ دن گئے کون اب یہ حماقت کرے کیا کہتے تھے اُسے - عہدِ وفا؟ ہاں! مگر اب وہ کہاں اُس پیکرِ ناز کا فسانہ دل ہوش میں آئے تو سناؤں مجھے بس خیال تھا اُسکا اور اُسے فکر زمانے کی خدا کرے کہ اب‘ زمانہ اُس سے وفا کرے میں نے تو تھک ہار کے دشت میں خیمے لگالیے لو! بند کرتا ہوں آنکھیں تم بھی اب رخصت لو...
  16. مرزا عبدالعلیم بیگ

    اک بےنام اذیت

    میں مستقبل کے تصور سے ہراساں ہوں مجھے گزرے ہوئے ایام سے نفرت ہے شرمندہ ہوں اپنی بے کار تمنائوں پہ ندامت ہے مجھے بے سود امیدوں پہ سہارا لے کر بے کار امیدوں کا خواب سجائے تھے تمہارے خاطر بےربط تمنائوں کے مبہم خاکے خوابوں میں بسائے تھے تمہارے خاطر زندگی بےکار سہی‘ عشق ناکام سہی میری ذلت کے سوا کچھ...
  17. مرزا عبدالعلیم بیگ

    اجازت و گزارش

    تم اگر چاہو جانا ہاتھ اگر چاہو چھڑانا چلو تم کو ہے اجازت فقط ہے اک گزارش میری ہر سوچ میں شامل رہنا جیسے یادوں میں رہتے ہو یونہی تا عمر حاصل رہنا بچھڑنا چاہو تو ہے اجازت مگر تم یہ یاد رکھنا اپنی ہر بات پہ قائل رہنا یاد رکھنا کے تمہیں لوٹ کے پھر آنا ہوگا دور جا کر بھی تم میری سمت سے مائل رہنا...
Top