عہدِ وفا

بس اب وہ دن گئے
کون اب یہ حماقت کرے
کیا کہتے تھے اُسے - عہدِ وفا؟
ہاں! مگر اب وہ کہاں
اُس پیکرِ ناز کا فسانہ
دل ہوش میں آئے تو سناؤں
مجھے بس خیال تھا اُسکا
اور اُسے فکر زمانے کی
خدا کرے کہ اب‘
زمانہ اُس سے وفا کرے
میں نے تو تھک ہار کے
دشت میں خیمے لگالیے
لو! بند کرتا ہوں آنکھیں
تم بھی اب رخصت لو
عہدِ وفا کی بات نا کرو
بس اب چپ ہی رہو !
 
Top