کمار پاشی

  1. کاشفی

    گھیرا ڈالے ہوئے ہے دشمن بچنے کے آثار کہاں - کمار پاشی

    غزل (کمار پاشی) گھیرا ڈالے ہوئے ہے دشمن بچنے کے آثار کہاں خالی ہاتھ کھڑے ہو پاشیؔ رکھ آئے تلوار کہاں کیوں لوگوں سے مہر و وفا کی آس لگائے بیٹھے ہو جھوٹ کے اس مکروہ نگر میں لوگوں کا کردار کہاں کیا حسرت سے دیکھ رہے ہیں ہمیں یہ جگ مگ سے ساحل ہائے ہمارے ہاتھوں سے بھی چھوٹے ہیں پتوار کہاں ختم...
  2. کاشفی

    ایک کہانی ختم ہوئی ہے ایک کہانی باقی ہے - کمار پاشی

    غزل (کمار پاشی) ایک کہانی ختم ہوئی ہے ایک کہانی باقی ہے میں بے شک مسمار ہوں لیکن میرا ثانی باقی ہے دشت جنوں کی خاک اڑانے والوں کی ہمت دیکھو ٹوٹ چکے ہیں اندر سے لیکن من مانی باقی ہے ہاتھ مرے پتوار بنے ہیں اور لہریں کشتی میری زور ہوا کا قائم ہے دریا کی روانی باقی ہے گاہے گاہے اب بھی چلے...
  3. کاشفی

    میں ڈھونڈتا ہوں جسے آج بھی ہوا کی طرح - کمار پاشی

    غزل (کمار پاشی) میں ڈھونڈتا ہوں جسے آج بھی ہوا کی طرح وہ کھوگیا ہے خلا میں مری صدا کی طرح نہ پوچھ مجھ سے مرا قصہء زوالِ جنوں میں پانیوں پہ برستا رہا گھٹا کی طرح تمام عمر رہا ہوں میں جسم میں محصور تمام عمر کٹی ہے مری سزا کی طرح اُتار دے کوئی مجھ پر سے یہ بدن کی ردا کہ مار ڈالے مجھے بھی مرے خدا...
  4. طارق شاہ

    کمار پاشی ::::: فروغِ شہرِ صدا پرتوِ خیال سے تھا ::::: Kumar Pashi

    غزلِ فروغِ شہرِ صدا پرتوِ خیال سے تھا کہ یہ طلِسم تو بس خواہشِ وِصال سے تھا جو کھو گیا کسی شب کے سِیہ سمندر میں بندھا ہُوا میں اُسی لمحۂ زوال سے تھا میں قید ہوگیا گُنبد میں گوُنج کی مانند کہ میرا ربط ہی اِک ناروا سوال سے تھا جو خاک ہو کے ہَواؤں میں بہہ گیا ہے کہیں مِرا وجُود اُسی...
Top