اپنی ملکۂ سخن سے
اے شمعِ جوشؔ و مشعلِ ایوانِ آرزو !
اے مہرِ ناز و ماہِ شبستانِ آرزو!
اے جانِ درد مندی و ایمانِ آرزو!
اے شمعِ طُور و یوسفِ کنعانِ آرزو!
ذرے کو آفتاب تو کانٹے کو پھول کر
اے روحِ شعر! سجدۂ شاعر قبول کر
دریا کا موڑ، نغمۂ شیریں کا زیر و بم
چادر شبِ نجوم کی، شبنم کا رختِ نم
تتلی...
غزل
بہار آئی ہے کُچھ بے دِلی کا چارہ کریں
چمن میں آؤ حریفو ! کہ اِستخارہ کریں
شرابِ ناب کے قُلزُم میں غُسل فرمائیں
کہ آبِ مُردۂ تسنِیم سے غرارہ کریں
جُمود گاہِ یخ و زمہرِیر ہی میں رہیں
کہ سیرِ دائرۂ شُعلہ و شرارہ کریں
حِصارِ صومِعہ کے گِرد ، سعی فرمائیں
کہ طوفِ کعبہ رِندِ شراب خوارہ...
اردو انگریزی
جوش نے پاکستان میں ایک بہت بڑے وزیر کو اردو میں خط لکھا، لیکن اس کا جواب انہوں نے انگریزی میں ارسال فرمایا۔ جواب الجواب میں جوشؔ نے انہیں لکھا:
''جناب والا' میں نے تو آپ کو اپنا مادری زبان میں خط لکھا تھا ، لیکن آپ نے اس کا جواب اپنی پدری زبان میں تحریر فرمایا ہے ۔''
غزل
جو بادشاہ، پُرسِشِ حالِ گدا کرے
اُس پر کبھی زوال نہ آئے خُدا کرے
حاصِل اگر ہو وحدَتِ نَوعِ بَشر کا عِلم
تو پِھر عَدُوئے جاں سے بھی اِنساں وَفا کرے
میرا بُرا جو چاہ رہا ہے، بہر نَفَس
اللہ ہر لِحاظ سے، اُس کا بَھلا کرے
ہم ساکنانِ کُوئے خرابات کی طرح
یارب! کبھی فقِیہ بھی ترکِ رِیا کرے...
جوؔش ملیح آبادی
شام کیوں رقصاں نہ ہو صُبحِ جِناں کی چھاؤں میں
قُلقُلِ مِینا، پَر افشاں ہے، اذاں کی چھاؤں میں
زندگانی کا تموُّج ، نوجوانی کی ترنگ
چرخ زن ہے فرق پر ابرِ رَواں کی چھاؤں میں
موت ہے شرمندہ پیشِ آب و رنگِ زندگی
چاند ہے صد پارہ دامانِ کَتاں کی چھاؤں میں
زندگی بیٹھی ہے آکر آج اِک...