جوش ملیح آبادی کے لطیفے

اردو انگریزی
جوش نے پاکستان میں ایک بہت بڑے وزیر کو اردو میں خط لکھا، لیکن اس کا جواب انہوں نے انگریزی میں ارسال فرمایا۔ جواب الجواب میں جوشؔ نے انہیں لکھا:
''جناب والا' میں نے تو آپ کو اپنا مادری زبان میں خط لکھا تھا ، لیکن آپ نے اس کا جواب اپنی پدری زبان میں تحریر فرمایا ہے ۔''
 
آخری تدوین:
جوش اور پروین شاکر
اسلام آباد میں جوشؔ صاحب کی کوٹھی میں شعرائے کرام کی نشست تھی۔ خواتین میں پاکستان کی مشہور شاعرہ پروین شاکر بھی موجود تھیں۔ کچھ دیر بعد مہمانوں کے لئے چائے لائی گئی تو پروین شاکر چائے بنانے کا فریضہ سر انجام دینے لگیں۔ وہ ہر ایک سے دودھ اور شکر کا پوچھ کر حسب منشا چائے بناکر دے رہی تھیں ۔ آخر میں انہوں نے جوشؔ صاحب سے دریافت کیا:
''آپ کے لئے شکر کتنی؟''
''ایک چمچ '' جوش ؔ صاحب نے جواب دیا۔
دورہ پروین شاکر نے پوچھا۔''جوش ؔ صاحب!دودھ کتنا؟''
''بس دکھادو''جوشؔ صاحب نے جواب دیا۔ اس پر محفل میں ایک زور دار قہقہہ بلند ہوا اور پروین شاکر جھینپ کر رہ گئیں۔
 
آخری تدوین:
گدھے اور گھوڑے
بمبئی کی ایک معروف ادب پرور اور بوڑھی مغنیہ کے یہاں محفل مشاعرہ منعقد ہورہی تھی ، جس میں جوش، جگر ، حفیظ جالندھری ، مجازؔ اور ساغرؔ نظامی بھی شریک تھے ۔
مشاعرے کے اختتام پر ایک دبلی پتلی سی لڑکی جس کی کم سن آنکھیں بجائے خودکسی غزل کے نمناک شعروں کی طرح حسین تھیں ، ایک مختصر سی آٹو گراف بک میں دستخط لینے لگی ۔
اس جہاندیدہ مغنیہ کی موجودگی میں یہ نو عمر حسینہ زندگی کے ایک تضاد کو نہایت واضح انداز میں پیش کررہی تھی ۔ چنانچہ اس تضاد کے پیش نظر جگر ؔ مرادآبادی نے آٹو گراف بک میں لکھا۔
ازل ہی سے چمن بند محبت
یہی نیرنگیاں دکھلا رہا ہے
کلی کوئی جہاں پہ کھل رہی ہے
وہیں اک پھول بھی مرجھا رہا ہے
اور جب حفیظؔ صاحب کی باری آئی تو انہوں نے معصوم لڑکی کے چہرے پر ایک حسرت بھری نگاہ ڈالتے ہوئے لکھا
معصوم امنگیں جھولی رہی ہیں دلداری کے جھولے میں
یہ کچی کلیاں کیا جانیں کب کھلنا ، کب مرجھانا ہے
اس کے بعد آٹو گراف بک دوسرے شاعرں کے پاس سے ہوتی ہوئلی جب جوشؔ صاحب کے سامنے آئی تو انہوں نے لکھا:
''آٹو گراف بک ایک ایسا اصطبل ہے ، جس میں گدھے اور گھوڑے ایک ساتھ باندھے جاتے ہیں۔''
 
آخری تدوین:
جوش اور اداکارہ
بمبئی میں جوشؔ صاحب ایک ایسے مکان میں ٹھہرے جس میں اوپر کی منزل پر ایک اداکارہ رہتی تھی مکان کی کچھ ایسی ساخت تھی کہ انہیں دیدار نہ ہوسکتا تھا ، لہذا انہوں نے یہ رباعی لکھی
میرے کمرے کی چھت پہ ہے اس بت کا مکان
جلوے کا نہیں ہے پھر بھی کوئی امکان
گویا اے جوشؔ میں ہوں ایسا مزدور
جو بھوک میں ہو سر پہ اٹھائے ہوئے خوان
 
آخری تدوین:
جوش کی غزل
ایک بزرگ خاتون نے ملاقات کے دوران جب جوش کی خیریت دریافت کی تو موصوف نے کہا :''آج راستے میں بھیڑ بہت تھی ، آلو کا نرخ گھٹ رہا ہے ، رات کو سردی اپنے عروج پر تھی، وغیرہ وغیرہ ۔''اور جب ان خاتون نے حیران ہوکر اس بے ربط گفتگو کا مطلب دریافت کیا تو جوشؔ صاحب نے فرمایا کہ وہ غزل کہہ رہے تھے ۔
 
آخری تدوین:
جوش و فیض
یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ فیض احمد فیضؔ کی آواز میں نسوانیت تھی اور جوشؔ ملیح آبادی کی آواز میں کھنک تھی ۔''جشن رانی'' لائل پور کے مشاعرہ میں جوشؔ ملیح آبادی اور فیض احمد فیضؔ الگ الگ گروپوں میں بیٹھے تھے ۔ قتیلؔ شفائی مشاعرہ میں شرکت کے لئے آئے تو فیضؔ صاحب کی طرف جانے لگے جوشؔ صاحب نے آواز دی ۔''قتیل ؔ وہاں کہاں جارہے ہو سیدھے مردانے میں چلے آؤ ۔''
 
جوش اور منموہن تلخؔ
منموہن تلخؔ نے جوش ملیح آبید کو فون کیا اور کہا:
''میں تلخؔ بول رہا ہوں
جوشؔ صاحب نے جواب دیا''کیا حرج ہے اگر آپ شیریں بولیں۔''
 
جوش اور مولانا
ایک مولانا کے جوشؔ ملیح آبادی سے بہت اچھے تعلقات تھے ۔ کئی روز کی غیر حاضری کے بعد ملنے آئے تو جوش صاحب نے وجہ پوچھی۔
''کیا بتاؤں جوش صاحب۔پہلے ایک گردے میں پتھری تھی ، اس کا آپریش ہوا ۔ اب دوسرے گردے میں پتھری ہے ۔''
''میں سمجھ گیا ۔''جوش صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا۔''اللہ تعالی آپ کو اندر سے سنگسارکررہا ہے۔''
 
جوشؔ اور عبد الحمید عدمؔ
عبد الحمید عدمؔ کو کسی صاحب نے ایک بار جوشؔ سے ملایا۔
''آپ عدمؔ ہیں۔''۔!
عدمؔ کافی تن و توش کے آدمی تھے جوشؔ نے ان کے ڈیل ڈول کو بغور دیکھا اور کہنے لگے ۔''عدمؔ یہ ہے'تو وجود کیا ہوگا؟''
 
نیا محلہ
جوشؔ صاحب پل بنگش میں جس محلہ میں آکر رہے اس کا نام تقسیم وطن کے بعد سے ''نیا محلہ پڑگیا تھا ۔ وہاں سکونت اختیار کرنے کے بعد جوشؔ صاحب کو معلوم ہوا کہ پہلے اس کا نام ''رنڈی والا باغ''تھا ۔ بڑی اداسی سے کہنے لگے ۔
''کیا بد مذاق لوگ ہیں ! کتنا اچھا نام بدل کر رکھ دیا۔''
 
آخری تدوین:
منافقت
کسی مشاعرے میں ایک نو مشق شاعر اپنا غیر موزوں کلام پڑھ رہے تھے ۔
اکثر شعراء آداب محفل کو ملحوظ رکھتے ہوئے خاموش تھے ۔لیکن جوشؔ ملیح آبادی پورے جوش و خروش سے ایک ایک مصرعہ پرداد تحسین کی بارش کئے جارہے تھے ۔
گوپی ناتھ امنؔ نے ٹوکتے ہوئے پوچھا:
''قبلہ ! یہ آپ کیا کررہے ہیں ؟''
''منافقت''۔۔۔!
جوشؔ نے بہت سنجیدگی سے جواب دیا اور پھر داد دینے میں مصروف ہوگئے۔
 
Top