انیس

  1. منہاج علی

    انیس حُسنِ علی اکبرؑ کی مدحت

    تیغ و ترُنج اگر ہوں ہلال اور آفتاب سرکاؤں چہرۂ علی اکبرؑ سے پھر نقاب حوریں گلوں کو کاٹ کے تڑپیں، رہے نہ تاب گر دیکھتِیں وہ حُسنِ ملیح اور وہ شباب پریاں اُنؑ کے سائے کا پیچھا نہ چھوڑتِیں دامن کبھی جنابِ زلیخا نہ چھوڑتِیں (خدائے سخن میر انیسؔ) لغت: ترنج= لیموں
  2. فرخ منظور

    نمود و بود کو عاقل حباب سمجھے ہیں ۔ میر انیس

    نمود و بود کو عاقل حباب سمجھے ہیں وہ جاگتے ہیں جو دنیا کو خواب سمجھے ہیں کبھی برا نہیں جانا کسی کو اپنے سوا ہر ایک ذرے کو ہم آفتاب سمجھے ہیں عجب نہیں ہے جو شیشوں میں بھر کے لے جائیں ان آنسوؤں کو فرشتے گلاب سمجھے ہیں زمانہ ایک طرح پر کبھی نہیں رہتا اسی کو اہلِ جہاں انقلاب سمجھے ہیں...
  3. کاشفی

    گنہ کا بوجھ جو گردن پہ ہم اُٹھا کے چلے - میر انیس

    غزل (میر انیس) گنہ کا بوجھ جو گردن پہ ہم اُٹھا کے چلے خدا کے آگے خجالت سے سر جھکا کے چلے کسی کا دل نہ کیا ہم نے پائمال کبھی چلے جو راہ تو چیونٹی کو ہم بچا کے چلے مقام یوں ہوا اس کارگاہء دنیا میں کہ جیسے دن کو مسافر سرا میں آکے چلے طلب سے عار ہے اللہ کے فقیروں کو کبھی جو...
  4. کاشفی

    انیس رنجِ دُنیا سے کبھی چشم اپنی نم رکھتے نہیں - میر ببر علی انیس

    مرثیہ (میر ببر علی انیس) رنجِ دُنیا سے کبھی چشم اپنی نم رکھتے نہیں جُز غمِ آلِ عبا ہم اور غم رکھتے نہیں کربلا پُہنچے زیارت کی ہمیں پروا ہے کیا؟ اب ارم بھی ہاتھ آئے تو قدم رکھتے نہیں در پہ شاہوں کے نہیں جاتے فقیر اللہ کے سر جہاں رکھتے ہیں سب، ہم واں قدم رکھتے نہیں...
  5. فرخ منظور

    شہیدِ عشق ہوئے قیسِ نام ور کی طرح - میر انیس

    شہیدِ عشق ہوئے قیسِ نام ور کی طرح جہاں میں عیب بھی ہم نے کیے ہنر کی طرح کچھ آج شام سے چہرہ ہے فق، سحر کی طرح ڈھلا ہی جاتا ہوں فرقت میں دوپہر کی طرح سیاہ بختوں کو یوں باغ سے نکال اے چرخ کہ چار پھول تو دامن میں ہوں سپر کی طرح تمام خلق ہے خواہانِ آبرو، یارب! چھپا مجھے صدفِ قبر میں گہر...
Top