اکبر الٰہ آبادی

  1. پ

    دو غزلیں - غالب و اکبر الٰہ آبادی

    یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتاا اگر اور جیتے رہتے ، یہی انتظار ہوتا ترے وعدے پر جئے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا کہ خوشی سے مر نہ جاتے، اگر اعتبار ہوتا تری نازکی سے جانا کہ بندھا تھا عہد بودا کبھی تو نہ توڑ سکتا اگر استوار ہوتا کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیرِ نیم کش کو...
  2. پ

    اکبر الہ آبادی نظم - برقِ کلیسا - اکبر الٰہ آبادی

    برقِ کلیسا ( یہ نظم 1907 میں لکھی گئی تھی) رات اس مس سے کلیسا میں ہوا میں دو چار ہائے وہ حسن، وہ شوخی، وہ نزاکت، وہ ابھار زلفِ پیچاں میں وہ سج دھج کہ بلائیں بھی مرید قدِ رعنا میں وہ چم خم کہ قیامت بھی شہید آنکھیں وہ فتنۂ دوراں کہ گنہگار کریں گال وہ صبحِ درخشاں کہ ملک پیار کریں گرم تقریر جسے...
  3. دل پاکستانی

    اکبر الہ آبادی انہیں شوق عبادت بھی ہے اور گانے کی عادت بھی - اکبر الہ آبادی

    انہیں شوق عبادت بھی ہے اور گانے کی عادت بھی نکلتی ہیں دعائیں ان کے منہ سے ٹھمریاں ہو کر تعلق عاشق و معشوق کا تو لطف رکھتا ہے مزے اب وہ کہاں باقی رہے بیوی میاں ہو کر نہ تھی مطلق توقع بل بنا کر پیش کر دو گے میری جاں لٹ گیا میں تمھارا مہماں ہو کر حقیقت میں میں بلبل ہوں مگر چارے کی خواہش ہے...
  4. سیفی

    اکبر الہ آبادی اکبر الٰہ آبادی کے خوبصورت اشعار

    اکبر الٰہ آبادی کے خوبصورت اشعار بے تمہارے دیکھے اب دم بھر بھی چین آتا نہیں سچ بتاؤ جانِ جاں، تم نے مجھے کیا کردیا سب کے سب باہر ہوئے، وہم و خرد، ہوش و تمیز خانۂ دل میں تم آؤ، ہم نے پردا کردیا
Top