مت پوچھ اے ہمدم احوالِ شبِ غم
کیسے شبِ ہجراں کو کرتے ہیں سحر ہم
ہم نے تو جہاں بھر کے طبیبوں سے نہ پایا
اس درد کا چارہ اس زخم کا مرہم
ساقی کی مریدی ہے شبِ غم کے سبب ورنہ
کہاں رندوں کی محفل کہاں جام کہاں ہم
بن آگ دکھائے جل اٹھا اچانک
گھر کا وہ شجر تھا جو میرے درد کا محرم
دل درد سے اب بھی بسمل...