ہم جس دیس میں بستے ہیں
اُس دیس کے لیڈر سستے ہیں
ہر دل میں دیکھو بُغض بھرا
اور ہاتھوں میں گُلدستے ہیں
قد آور ، دُنیا داری میں
کردار میں کتنے 'پَستے' ہیں
مُستقبل کی کیا فکر کریں
جو حال میں اپنے 'مستے' ہیں
خُود چھیڑیں پہلے پبلِک کو
پھر دُم کو دبا کر 'نَستے' ہیں
اوروں کے لئے یہ جال بُنیں
پھر...