نتائج تلاش

  1. درویش بلوچ

    ملیں گے تم کو ہم الفت کے میداں میں یا زنداں میں

    ملیں گے تم کو ہم الفت کے میداں میں یا زنداں میں ہیں ہم اہل وفا ہم کو نہ ڈھونڈا کر گلستاں میں صلیب و دار ورثے میں ملے اسلاف سے ہم کو حلاوت تو یہی بھر دیتے ہیں مومن کے ایماں میں خضر کی طرح ہم آب بقا ڈھونڈا نہیں کرتے اجل کی جستجو کرتے ہیں ہم دشت و بیاباں میں در محبوب خالی ہاتھ یوں جایا نہیں...
  2. درویش بلوچ

    کبھی شاید بدل جائیں گے دن ہم بد نصیبوں کے

    کبھی شاید بدل جائیں گے دن ہم بد نصیبوں کے شفا مل جائے گی ہم کو بھی ہاتھوں ان طبیبوں کے میں نکلا سرخرو ہوکر محبت کی عدالت سے ہوئے دعوے غلط ثابت میرے سارے رقیبوں کے ہماری سرکشی بھی اب کے اپنی انتہاء پر ہے بچھائے جارہے ہیں جال ہر جانب صلیبوں کے امیروں کی تمنائیں تو پوری ہو ہی جاتی ہیں فقط حسرت ہی...
  3. درویش بلوچ

    چاک دل چاک گریبان لیے پھرتا ہوں

    چاک دل، چاک گریبان لیے پھرتا ہوں ایک ویران گلستان لیے پھرتا ہوں ایک وہ روز نئے جلوے دکھا دیتی ہے ایک میں دیدۂ حیران لیے پھرتا ہوں میں پگھل جاؤں کوئ پڑھ کے سنائے ایسے میں مسلمانوں میں قرآن لیے پھرتا ہوں اب مسیحا کی نہیں کوئ ضرورت ہم کو اب تو ہر زخم کا درمان لیے پھرتا ہوں کوچہء یار میں درویش بڑی...
  4. درویش بلوچ

    جام حاضر، شراب حاضر ہیں (فاعلاتن مفاعلن فعلن)

    جام حاضر، شراب حاضر ہیں میکدے میں جناب حاضر ہیں میرے ایماں کی خیر ہو یارب آج وہ بے نقاب حاضر ہیں میرے حصے میں خار نہ آئے ان کی خاطر گلاب حاضر ہیں نغمۂ درد مطربو چھیڑو پھر سے چنگ و رباب حاضر ہیں حشر میں کچھ تو دے نہیں سکتا میرے سارے ثواب حاضر ہیں تذکرہ کررہے تھے تم جس کا لو وہ خانہ خراب حاضر...
  5. درویش بلوچ

    لو اب راز دل کے عیاں ہورہے ہیں

    لو اب راز دل کے عیاں ہورہے ہیں ترے بزم میں سب بیاں ہورہے ہیں مصیبت کے دن ختم ہونے لگے ہیں ستم گر مرے مہرباں ہورہے ہیں امیرِ شہر آج کل ہے پریشاں غریبوں کے بچے جواں ہورہے ہیں جنہیں ہم نے کل بولنا جو سکھایا وہ اغیار کے نغمہ خواں ہورہے ہیں اترنے لگے وہ جفاؤں پہ درویش رقم پھر نئے داستاں ہورہے ہیں
  6. درویش بلوچ

    ہم تصور میں جو ان سے دوچار ہیں (فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن)

    ہم تصور میں جو ان سے دوچار ہیں درد سوئے ہوئے پھر سے بیدار ہیں ہائے! بے رخ ہوئے شہر کے چارہ گر ان کے چوکھٹ پہ ہم کب سے بیمار ہیں کون دے گا مرے قاتلوں کو سزا منصفِ وقت خود ان کے غمخوار ہیں قتل و غارت گری جن کا پیشہ رہا ملک و ملت کے وہ آج سردار ہیں بے وفا تاج و تختوں کے مالک بنے اور اہلِ...
  7. درویش بلوچ

    بہت سارے غم زندگی میں اٹھائے (فعولن فعولن فعولن فعولن)

    بہت سارے غم زندگی میں اٹھائے کبھی رو پڑے تو کبھی مسکرائے غموں کو نہ مل پایا کوئ ٹھکانہ سر شام پھر وہ مِرے دل میں آئے اداکاریاں خوب آتی ہیں ان کو حسینوں کے فتنوں سے اللہ بچائے عجب حادثہ ہوگیا بت کدے میں امیرِ حرم آج تشریف لائے دلِ منتظر پھر دھڑکنے لگے گا کوئ رات کو میرا در کھٹکھٹائے...
  8. درویش بلوچ

    مصیبتوں سےتم نہ ڈر خدا ہمارے ساتھ ہے

    مصیبتوں سے تم نہ ڈر خدا ہمارے ساتھ ہے میرے عزیز غم نہ کر خدا ہمارے ساتھ ہے زمانہ چاہے لاکھ الجھنوں میں ہم کو ڈال دے جہان ہے عدو اگر خدا ہمارے ساتھ ہے پیامِ مرگ ہے انقلاب ظالموں کے واسطے بپا کریں گے ہم حشر خدا ہمارے ساتھ ہے تری طرح یہاں بہت خدا کے دعویدار تھے نہیں ہے ان کی کچھ خبر خدا ہمارے...
  9. درویش بلوچ

    جب لوگ کبھی زکر مدینے کا کریں گے

    جب لوگ کبھی زکر مدینے کا کریں گے ہم بزم میں حسرت سے یونہی آہ بھریں گے اے شاہِ حرم! آپ نے گر حال نہ پوچھا دیوانے ترے اب کے تو رو رو کے مریں گے حاصل ہو جنہیں آپ کے درگاہ کی غلامی طوفان و حوادث سے بھلا کیسے ڈریں گے کچھ خوف نہیں موت و حشر کا ہمیں درویش ہم قبر میں سرکار کا دیدار کریں گے
Top