انقلاب ماضی
اُٹھو مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
جو نقش کہن تم کو نظر آئے مٹادو
جس کھیت سے دہقان کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلادو
انقلاب حال
اُٹھو کہ "اختیار" کا مزہ مجھ کو چکھا دو
"ارباب بے اختیار" کو جوتوں سے پٹا دو
جو ہاتھ مرا اس میں نظر آئے کہیں تو
اس ہاتھ پہ...