اِک سُخن مطربِ زیبا، کہ سُلگ اُٹھّے بدن
اِک قدح ساقیِ مہْوش، جو کرے ہوش تمام
ذکرِ صبحے کہ رُخ یار سے رنگِیں تھا چمن!
یاد شبہا کہ تنِ یار تھا آغوشِ تمام
فیض احمد فیض
بِیتا دید اُمّید کا موسم، خاک اُڑتی ہے آنکھوں میں
کب بھیجو گے درد کا بادل، کب برکھا برساؤ گے
عہدِ وفا یا ترکِ محبّت، جو چاہو سَو آپ کرو
اپنے بس کی بات ہی کیا ہے، ہم سے کیا منواؤگے
فیض احمد فیض
گرمئی رشک سے ہر انجُمنِ گُل بدناں
تذکرہ چھیڑے تِری پیرَہن آرائی کا
صحْنِ گُلشن میں کبھی اے ! شہِ شمشاد قداں
پھر نظر آئے سلیقہ تری رعنائی کا
ایک بار اور مسیحائے دلِ دل زدگاں
کوئی وعدہ، کوئی اقرار مسیحائی کا
فیض احمد فیض
دلِ مجبُور بھی کیا شے ہے، کہ در سے اپنے!
اُس نے سَو بار اُٹھایا ، تو میں سَو بار آیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیوں نہ برہم ہوں وہ حسرت مِری رُسوائی سے
نام اُن کا بھی، بہرکوچہ و بازار آیا
حسرت موہانی
تیرے اِنکار سے فی الفور ہُوا کام تمام
زخم ایسا سَرِ اُمّید پہ کاری آیا
اور تو کچھ بھی ہمیں عشق میں حاصِل نہ ہُوا
ہاں مگر اِک ہُنرِ سِینہ نِگاری آیا
حسرت موہانی
یوسف کو لے اُڑ ے نہ کہیں بُوئے پیرہن
اخفائے حُسن و عشق نہیں اِختیار میں
دِینْدار و بُت پرست اُترتے ہیں ایک گھاٹ
کیا معجزہ ہے جُنْبشِ ابروئے یار میں
یاس یگانہ عظیم آبادی
لپٹتی ہے بہت یادِ وطن جب دامنِ دل سے
پلٹ کر اِک سلام شوق کر لیتا ہُوں منزل سے
نظر آئے جب آثارِ جُدائی رنگِ محفل سے
نگاہِ یاس بیگانہ ہوئی یارانِ یک دل سے
یاس یگانہ عظیم آبادی
منظُور تھی یہ شکل، تجلّی کو نُور کی
قسمت کھُلی تِرے قد ورُخ سے ظہُور کی
گو واں نہیں، پہ واں سے نِکالے ہوئے تو ہیں
کعبہ سے اِن بُتوں کو بھی نسبت ہے دُور کی
مرزا غالب
نغمہ ہائے غم کوبھی، اے دل! غنیمت جانیے
بے صدا ہو جائے گا یہ سازِ ہستی ایک دن
دَھول دَھپّا اُس سراپا ناز کا شیوہ نہیں
ہم ہی کر بیٹھے تھے، غالب! پیش دستی ایک دن
مرزا غالب
پُہونْچے ہیں ہم کو عِشق میں آزار ہر طرح
ہوتے ہیں ہم سِتم زدہ بِیمار ہر طرح
ترکیب و طرح ناز و ادا سب سے دل لگے
اُس طرحدار کے ہیں گرفتار ہر طرح
میر تقی میر
پھر بے نوا حیات کے ویران دوش پر
بل کھا رہی ہے گیسوئے عنبر فشاں کی یاد
پھر ریگزارِ سندھ کی تپتی زمین پر
گنگا کو لے کر آئی ہے ہندوستاں کی یاد
جوش ملیح آبادی