وہ حسن سراپا ہے، وہ مصدرِ رعنائی
میں عشقِ مجسم ہوں، میں چشمِ تماشائی
یہ قوتِ گویائی، یہ سوچ کی گہرائی
انساں کو ملی کیسی، دانائی و بینائی
جو چیز بھی پائی ہے، وہ در سے ترے پائی
لاریب تو آقائی، لاریب تو مولائی
ہیں مہر بہ لب کلیاں، ہیں پھول بھی افسردہ
غل ہے کہ بہار آئی، کیا خاک بہار آئی
اقرب ہے...