تو مجموعی طور پہ یہ غزل اس طرح ہو گئی ہے:
کبھی زندگی سے ملا چاہتا ہوں
کبھی موت کی میں دعا چاہتا ہوں
بچھڑ جا تُو مجھ سے کہ میں تجھ کو اب سے
مری زندگی سے جدا چاہتا ہوں
چمن میں ہمیشہ اداسی رہی ہے
یہاں اب خوشی کی فضا چاہتا ہوں
رقیبوں کی محفل ہو یا دوستوں کی
میں تو بس یہاں سے اٹھا چاہتا ہوں
محبت کسی...