دیکھو تو ذرا چشمِ سُخن گو کے اِشارے
پِھر تم کو یہ دعوٰی ہے کہ، میں کُچھ نہیں کہتا
یہ خُوب سمجھ لیجیے غمّاز وہی ہے !
جو آپ سے کہتا ہے کہ، میں کچھ نہیں کہتا
داغؔ دہلوی
غزل
اِک ہُنر تھا، کمال تھا ،کیا تھا
مجھ میں، تیرا جمال تھا ،کیا تھا
تیرے جانے پہ اب کے کُچھ نہ کہا
دِل میں ڈر تھا، ملال تھا، کیا تھا
برق نے مجھ کو کر دِیا روشن
تیرا عکسِ جمال تھا، کیا تھا
ہم تک آیا تو ، مہرِ لُطف و کَرَم
تیرا وقتِ زوال تھا، کیا تھا
جس نے تہہ سے مجھے اُچھال دِیا
ڈُوبنے کا...
غزلِ
احمد ندِؔیم قاسمی
تنگ آجاتے ہیں دریا جو کوہستانوں میں !
سانس لینے کو نِکل جاتے ہیں میدانوں میں
خیر ہو دشت نوردانِ محبّت کی، کہ اب !
شہر بستے چلے جاتے ہیں بیابانوں میں
مال چُوری کا، جو تقسیم کیا چُوروں نے !
نِصف تو بَٹ گیا بستی کے نِگہبانوں میں
کون تاریخ کے اِس صِدق کو جُھٹلائے گا...
تیری محِفل بھی گئی ، چاہنے والے بھی گئے
شب کے آہیں بھی گئیں ، صُبح کے نالے بھی گئے
دِل تجھے دے بھی گئے ، اپنا صِلا لے بھی گئے
آ کے بیٹھے بھی نہ تھے اور نِکالے بھی گئے
علامہ اقبال
غزل
قائؔم چاندپُوری
شب جو دِل بیقرار تھا، کیا تھا
اُس کا پِھر اِنتظار تھا، کیا تھا
چشم، در پر تھی صبح تک شاید !
کُچھ کسی سے قرار تھا، کیا تھا
مُدّتِ عُمر، جس کا نام ہے آہ !
برق تھی یا شرار تھا ،کیا تھا
دیکھ کر مجھ کو، جو بزم سے تُو اُٹھا !
کُچھ تجھے مجھ سے عار تھا ، کیا تھا
پِھر گئی وہ...
غزل
غم کے ہاتھوں جو مِرے دِل پہ سماں گُذرا ہے
حادثہ ایسا ، زمانے میں کہاں گُذرا ہے
زندگی کا ہے خُلاصہ، وہی اِک لمحۂ شوق !
جو تِری یاد میں، اے جانِ جہاں ! گُذرا ہے
حالِ دِل غم سے ہے جیسے کہ، کسی صحرا میں!
ابھی اِ ک قافلۂ نوحہ گراں گُذرا ہے
بزمِ دوشیں کو کرو یاد،کہ اُس کا ہر رِند
رونقِ بارگۂ...
کفن باندھے ہوئے یہ شہر سارا جا رہا ہے کیوں
سُوئے مقتل ہی ہر رستہ ہمارا جا رہا ہے کیوں
مُسَلسَل قتل ہونے میں بھی اِک وقفہ ضرُوری ہے
سرِ مقتل ہَمِیں کو، پِھر پُکارا جا رہا ہے کیوں
ڈاکٹر پیرزادہ قاسم
ڈاکٹر پیرزادہ قاسم
کفن باندھے ہوئے یہ شہر سارا جا رہا ہے کیوں
سُوئے مقتل ہی ہر رستہ ہمارا جا رہا ہے کیوں
مُسَلسَل قتل ہونے میں بھی اِک وقفہ ضرُوری ہے
سرِ مقتل ہَمِیں کو، پِھر پُکارا جا رہا ہے کیوں
یہ منشُورِ سِتم! لیکن اِسے ہم مانتے کب ہیں
صحیفے کی طرح ہم پر اُتارا جا رہا ہے کیوں
یہاں اب...
غزل
مادھورام جوؔہر
ہم نہ چھوڑیں گےمحبّت تِری، اے زُلفِ سِیاہ
سر چڑھایا ہے ، تو کیا دِل سے گِرائیں تجھ کو
چھوڑ کر ہم کو، مِلا شمع رُخوں سے جاکر
اِسی قابِل ہےتُو اے دِل! کہ جلائیں تجھ کو
دردِ دِل کہتے ہُوئے بزم میں آتا ہے حجاب
تخلیہ ہو ، تو کُچھ احوال سُنائیں تجھ کو
اپنے معشُوق کی سُنتا...