جزاک اللہ
ہاہا۔ ہم کہاں کے دانا تھے وغیرہ وغیرہ :)
جی یہ کلام دادا جی کا ہی ہے۔ ٹائپ تو کب کا کر چکا ہوں۔ کافی حد تک یہاں پیش بھی کر چکا ہوں۔ ایک بزرگوار کو تبصرہ کا کہا ہوا ہے، اور ان کی جانب سے تاخیر کے سبب ای بک بھی رکی ہوئی ہے۔
وہی بجلیوں کی چشمک، وہی شاخِ آشیانہ
وہی میری زاریاں ہیں، وہی نالۂ شبانہ
بہ ادائے والہانہ، کوئی جہدِ مخلصانہ
مجھے چاہیے نہ واعظ، یہ کلامِ ناصحانہ
مری گردشیں ہیں ساری مرے اپنے ہی عمل سے
نہ نوشتۂ مقدر، نہ نوشتۂ زمانہ
ابھی سن رہے تھے ہنس کر، ابھی اٹھ گئے بگڑ کر
کہ سمجھ گئے بالآخر وہ حقیقتِ...
عطائے ساقی ِفطرت ہے کیا حکیمانہ
ہر اک کو بخششِ مے ہے بقدرِ پیمانہ
اسی خمار کی مے ہے، وہی ہے پیمانہ
کہوں میں کیسے کہ بدلا ہے نظمِ میخانہ
امنگ و آرزو و شوق و حسرت و ارماں
نہ ہوں جو دل میں تو دل کیا ہے ایک ویرانہ
سکوں ہے دل کو مرے سجدہ ہائے باطل پر
گراں ہے مجھ پہ مگر اف نمازِ دو گانہ
اب آ،...
میری آنکھوں میں آنسو آ گئے اور شیئر کیے بغیر نہ رہ سکا۔
اس شخص نے پاکستان کی خاطر 12 ہزار کروڑ پاؤنڈز رد کر دیے۔ مجھ سے تو ہندسوں میں بھی نہ لکھے جائیں۔
کہا جا رہا ہے کہ یہ گول میز کانفرنس 1930ء کی تصویر ہے۔ مگر پہلی گول میز کانفرنس میں اقبال شریک نہیں تھے۔ اور اگلے ادوار میں قائد اعظم شریک نہیں ہوئے۔
پھر یہ کب کی تصویر ہو سکتی ہے۔