اس میں آپ سب کا حصہ ہے۔ خاص طور پر ان دوستوں کا جنہوں نے سوالات کی وہ بارش کی وہ بارش کی کہ اس فقیر کو کچھ نہ کچھ عرض بھی کرنا پڑا، اور پھر کہیں وضاحت، کہیں مدافعت اور کہیں کہیں جوابی سوال بھی۔
میرے جس جس دوست کا جتنا جتنا حصہ ہے، وہ الگ کر لیجئے۔۔۔ کہ یہ فقیر سبک دامانی سے چلتا رہے۔
احباب کو مطلع ہو کہ یہ گل بانو کا پہلا افسانہ ہے، اور ان کی مضبوط فن کارانہ صلاحیت کا مظہر بھی۔
اس سے پہلے گل بانو کے ’’شذرات‘‘ قارئین سے داد پا چکے ہیں۔
ابھی ایک شعر (امجد اسلام امجد کا) نظر سے گزرا ۔۔۔ لفظی صناعی کی بہت عمدہ مثال ہے
اگر وہ زور و زر سے بھی نہ مانے
تو اس کے سامنے زاری نہ کرنا
لطف لیجئے، لفظوں کا بھی اور معانی کا بھی!
جتنی اچھی اور مترنم بحر آپ نے منتخب کی، اس میں شعر بھی ویسے اچھے آنے چاہئیں تھے۔
متفاعلن متفاعلن متفاعلن متفاعلن
خبرِ تحیّرِ عشق سن نہ جنوں رہا نہ پری رہی
نہ تو تو رہا نہ تو میں رہا جو رہی سو بے خبری رہی
چلی سمتِ غیب سے اک ہوا کہ چمن سرور کا جل گیا
مگر ایک شاخِ نہالِ غم جسے دل کہیں سو ہری رہی...
۔۔۔ یہ شمال جنوب والا تو گستاخی معاف! لفظی ہیر پھیر ہے۔ لفظی بازی گری شعر گوئی کا ایک بہت مؤثر اور کامیاب حربہ ہو سکتا ہے، اگر آپ معانی کی بھی ویسی پرتیں بنا سکیں۔ نہیں تو اس سے احتراز بہتر ہے۔
۔۔۔ مقطع میں اپنا پورا نام استعمال کرنے کوشش میں آپ کا شعر عجزِ بیان کا شکار ہو گیا۔
۔۔۔ نگاہِ دل سے شاعر کی اغلب مراد یہ ہے کہ ’’میرے دل میں بسا ہوا ہے‘‘۔ ’’نگاہِ یار‘‘ کا اس خاص سیاق و سباق میں محل نہیں بنتا۔تاہم عجیب سی صورت بنتی ہے کہ چہرہ دل میں ہے اور دل ملتفت نہیں ہے۔ اسی مضمون کو کسی اور انداز میں ادا کرنے کی کوشش کیجئے گا۔
۔۔۔ حبیبِ خالقِ ملک و زر سے مراد اگر نبیٔ اکرم...
۔۔۔ ارے والی بات شاہد شاہنواز کی بالکل درست ہے۔ یہ ’’ارے‘‘شعر کا تاثر نہیں بننے دے رہا۔ اس شعر کی تلازماتی سطح بھی وہ نہیں بنی، یوں قاری کو اس میں مفہوم خود ’’ڈالنا‘‘ پڑ رہا ہے۔ توجہ فرمائیے گا۔
۔۔۔ بول گیا اردو کا معروف محاورہ نہیں ہے۔ ’’کہہ گیا‘‘ بہتر ہوتا (بہ شرطِ اوزان)۔ اس شعر پر ذرا سی...
۔۔۔ سمندروں میں جواہر کی جستجو یا سمندروں کے جواہر کی جستجو؟ یہاں ’’کچھ‘‘ کا جواز یوں بنتا ہے کہ غوطہ زن کچھ نہ کچھ خاص وصف، جذبہ وغیرہ رکھتا ہے۔ اگرچہ شعر کی بیانیہ سطح بہت اعلٰی نہیں ہے۔’’بحرِ عشق کا غوطہ زن‘‘ ادا کرنے میں بھی ثقیل ہے۔
بہ تکلف بنائی ہوئی غزل لگتی ہے، تاہم اچھی ہے۔
۔۔۔ شاہد شاہنواز نے ’’نگاہِ قاتلِ روح و دِل‘‘ کو طویل قرار دیا، ایسی تراکیب اگر شعر میں کھُب کر آ رہی ہوں تو لطف دے جاتیں، بات وہی ہے سلیقے اور فن کاری کی۔ مجھے ذاتی طور پر یہ ترکیب یوں بھلی نہیں لگی کہ یہاں قتل ہونے کے لئے ’’روح و دل‘‘ کی بجائے کچھ...