زندگی کیا ہوئے وہ اپنے زمانے والے
یاد آتے ہیں بہت دل کو دکھانے والے
اجنبی بن کے نہ مل عمر گریزاں ہم سے
تھے کبھی ہم بھی ترے ناز اٹھانے والے
کس سے پوچھوں یہ سیاہ رات کٹے گی کس دن
سو گئے جا کے کہاں خواب دکھانے والے
اختر سعید
خود پشیمان ہوئے نے اسے شرمندہ کیا
عشق کی وضع کو کیا خوب نبھایا ہم نے
عمر بھر سچ ہی کہا سچ کے سوا کچھ نہ کہا
اجر کیا اس کا ملے گا یہ نہ سوچا ہم نے
شہر یار