اک رات میں بیٹھا تھا ، پریشان بہت تھا
اور دل میں خیالات کا طوفان بہت تھا
جنت کی طرف میرے خیالوں نے کیا رخ
بچپن سے وہاں جانے کا ارمان بہت تھا
دروازے پہ روکا مجھے پردیسی سمجھ کر
یا مجھ سے خفا خوب وہ دربان بہت تھا
پر میں نے اسے نام سے اس کے جو پکارا
اس بات پہ خوش مجھ سے وہ رضوان بہت تھا
وہ باغ...
بہت خوب غزل کہی ہے جناب۔۔۔
بہت سی داد قبول فرمائیے۔۔۔
مجھ سے اور بهی کتنے ، ہونگے تیرے شیدائی
جستجو جنہیں تیری کھینچ دشت تا لائی
”دشت تک لائی“ کردیں تو؟
لفظ لفظ چنتا ہوں حرف حرف بنتا ہوں
پر تمہارے کانوں تک اک نہیں سدا آئی
سدا یا صدا۔۔۔؟
اس سے قبل تم میرا ہر نشاں مٹاو گے
چهوڑ جاوں گا پیچھے...
یوں دل نہ لگے نہ درد اٹھے
مت روز ملو تو اچھا ہے
نہ پیار بڑھے نہ جھگڑا ہو
تم دور بسو تو اچھا ہے
کسی پھول سے ملتے چہرے کو
مری دنیا دیکھنا چاہے گی
گر پاس تمہارے کچھ بھی نہیں
پردے میں رہو تو اچھا ہے
لے کر زنجیریں ہاتھوں میں
کچھ لوگ تمہاری تاک میں ہیں
اے عشق ہماری گلیوں میں
نہ اور پھرو تو اچھا ہے...