اک رات میں بیٹھا تھا ، پریشان بہت تھا
اور دل میں خیالات کا طوفان بہت تھا

جنت کی طرف میرے خیالوں نے کیا رخ
بچپن سے وہاں جانے کا ارمان بہت تھا

دروازے پہ روکا مجھے پردیسی سمجھ کر
یا مجھ سے خفا خوب وہ دربان بہت تھا

پر میں نے اسے نام سے اس کے جو پکارا
اس بات پہ خوش مجھ سے وہ رضوان بہت تھا

وہ باغ ، وہ نہریں ، وہ محلات ، وہ حوریں
ہر عضوِ بدن پر مرے ”سبحان“ بہت تھا

طاعت کے لیے خوب فرشتے تھے مقرر
خدمت کے لیے مجمعِ غلمان بہت تھا

آقا سے ملاقات کی خواہش ہوئی پوری
آج اپنے مقدر پہ میں حیران بہت تھا

اللہ کے نبیوں کی زیارت ہوئی حاصل
عصمت کے عقیدے پہ میں قربان بہت تھا

امت کی ہدایت کے ستاروں کو بھی دیکھا
ان سب کے تعارف کو تو قرآن بہت تھا

پوچھا جو زمیں کا تو جواباً کہا میں نے
”بوبکر و عمر“ ، ”حیدر و عثمان“ بہت تھا

موجود وہاں تھے فقہاء اور مشائخ
ہم پر ان اکابر کا بھی احسان بہت تھا

جنت میں اگرچہ کسی شے کی نہ کمی تھی
رب کا دیا پروانۂ رضوان بہت تھا

آواز مؤذن کی اچانک مجھے آئی
سوئے ہوئے لوگوں کو یہ اعلان بہت تھا

محسوس ہوا آج سکوں مجھ کو اسامہ!
دنیاوی خیالات سے ہلکان بہت تھا
 
آخری تدوین:

شیرازخان

محفلین
امت کی ہدایت کے ستاروں کو بھی دیکھا
ان سب کے تعارف کو تو قرآن بہت تھا

ماشا اللہ جناب آپ کی ہر تخلیق بے مثال ہے۔۔۔مزہ آ گیا۔۔۔۔!!!
 
امت کی ہدایت کے ستاروں کو بھی دیکھا
ان سب کے تعارف کو تو قرآن بہت تھا

ماشا اللہ جناب آپ کی ہر تخلیق بے مثال ہے۔۔۔ مزہ آ گیا۔۔۔ ۔!!!
بہت شکریہ بھائی آپ نے پسند فرمایا۔
آپ کا یہ حسن ظن بے مثال ہے۔
جزاکم اللہ خیرا۔
 
Top