اک تذبذب کی گھڑی دل کے دروں ہے، یوں ہے
سایہ زلفوں کا لگے جیسے فسوں ہے یوں ہے
تذبذب کی گھر (اسم ظرف)، دل کے دروں (یہاں دل بھی اسمِ ظرف بنا) ۔ ایک ظرف میں دوسرا ظرف، مشکل تو پیدا کرے گا۔ ایسے میں اگر یوں کہاں جائے کہ یہ گھڑی دل پر وارد ہے یا چھائی ہوئی ہے تو بات واضح تر ہو سکتی ہے۔ "لگے ہے" اس پر...