کوشش کی تھی آج کہ شاعرانہ طرز کا کوئی دفینہ مِل سکے مگر تاحال تو کُچھ برآمد نہ ہو سکا مگر کوشش جاری ہے :) آپ کی تعریف کا شُکریہ لیکن بین السطور یہ بات بھی سامنے آئی کہ معاملہ ابھی جھلک تک ہی پہنچا ہے چھلک تک نہیں :)
شکوہ ! شکوہ جہاں کُچھ مشترک ہووہیں ہو سکتا ہے۔کُچھ لوگ شکوہ کرتے ہیں تو اُنہیں مان ہوتا ہے سو خُدا سے بھی کر لیتے ہیں۔ کُچھ سمجھتے ہیں کہ اُن کی ہستی میں کسی اشتراک کی تاب نہیں سو وہ راضی بالرضا رہتےہیں۔شکوہ آپ کی الگ شناخت بتاتا ہےآپ کو علیحدہ پسند و ناپسند کا مالک بتاتا ہے۔یہ آپ کو اپنے اظہار...
رضا بھائی ایک گڑبڑ ہو گئی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ وزن والے مضمون کی ٹائمنگ ٹھیک نہیں ہے ۔ اب دیکھیئے ناں کسی نے ہماری نیم شاعرانہ کوشش کواصلاحی نُقطہ نظر سے دیکھا ہی نہیں :)
تو سیکھنے کا عمل کیسے ہو گا۔ آپ ہی بارش کا پہلا قطرہ بنیں :)
۔
آپ نے لگتا ہے اساتذہ کو قائل کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش ہی نہیں کی۔ دیکھیں انسان کو دردِ دل کے واسطے پیدا کیا گیا ہےجیسا کہ ظفری بھائی نے بیان کیا ہےتو اگر آپ ٹاپ کر لیتیں تو اُن لوگوں کا کیا حشر ہوتا جو آپ کے ٹاپ نہ کرنے سے آج تک ٹاپ کرتے آئے ہیں :)
اُستادوں کے لیے آ پ کا پیغام "پیوستہ رہ شجر...
آپ سے آج ایک کاوش شیئرکرنے کا کہا تھا سو زیرِنظر تحریر پیشِ خدمت ہے:
تتلیاں، گلاب، جُگنو اور خواب
شوخ پرندوں والی رنگیں کتاب
ریت گھروندے، سیپیاں گھونگے
جیب خرچ کے دمکتے سِکّے
سب چیزیں اب تک سنبھالی ہیں
آ جاؤ کہ جھولے خا لی ہیں
میلے کپڑوں والا لڑکا
اَبھی غُبارے بیچ رہا ہے
رنگوں والی ڈبیا...
شفیق صاحب کئی روز تک خود قابلِ اصلاح رہے اور ایک عرصہ تک ناراض رہے ۔ پھر جیسے تیسے اُنہیں باور کرایا گیا کہ وہ واقعہ شاعرِ مشرق کی توہین کا حادثاتی ردِ عمل تھا اور اُس میں ذاتی رنجشیں بالکل بھی شامل نہ تھیں :)
بس جی ہمارے ہاتھ اَب ماچس لگ گئی ہے :) ویسے یہ "قلم خراش" ہونا کیسا ہوتا ہے :) میں بھی خوش ہو کر کسی کے گلے میں یہ میڈل ڈال دوں تو کوئی گڑبڑ والی بات تو نہیں ہے ناں :)
شکریہ رضا صاحب! آپ کی بات سے کیسےاختلاف کیا جا سکتا ہے مگر شفیق بے چارہ کونسا ابنِ انشاء تھا باقیوں کی ذہنی سطح بھی ایسی ہی تھی۔ وہ کہتا کہ وزن نہیں ہے تو صاحبِ کلام وزن لاتے لاتے خود دُبلے ہو جاتے مگر وزن آ کر ہی نہ دیتا تو اُس وقت کا عالمی مسئلہ شاعری صرف وزن ہی تھا :) اور ہمیں یہی پتا تھا کہ...
گلیوں کے شاپر بھی موزوں ہوا ملے تواپنے تئیں "شہباز" ہو جاتے ہیں ۔ ایسے ہی جب آپ کے مقدر کا اقبال بُلندی پر ہو تو بناء تردد کیے ہربند در کھُلتا چلا جاتا ہے نادان اِسے اپنا کمال سمجھ بیٹھتے ہیں یہ نادانی کے بھلے وقتوں کی کہانی ہے ۔ ایک نو آموز اور نادان ذہن کا پس منظرہی اِس تحریر کا کینوس ہے۔
نایاب بھائی ایسی کوئی بات نہیں کہ خُدا نخواستہ ہم کوئی پیدائشی قادرالکلام شاعر رہے ہیں۔ بس شعری اصلاح کو کبھی نہ سمجھ پائے سو ابھی تک اصلاح اور اصلاح فہمی کے طالب ہیں۔
ایک دِن سوچا کہ شاعری کے قواعد سے آشنائی کُچھ ایسی معیوب بات بھی نہیں ہے کہ اِسے یکسر نظراندازکر دیا جائےآخر ہمارا پہلا فین منظرِ عام پر آ چُکا تھا۔ طاہر صاحب کے آفس کا اتفاقیہ چکر لگا تو میں یہ دیکھ کر حیران (بلکہ پریشان) رہ گیا کہ اُن کی آفس ٹیبل کے شیشے کے نیچے ایک کاغذ کے ٹکڑے پر خوشخط املا...
پیارے دوست ! آپ کی باتیں کتنی اچھی ہیں مگر اِس حقیقت کا کیا کریں کہ انسان تو مر جاتے ہیں مگر اُن کا ادا کردہ کردار نہیں مرتا اور بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ کردار اچھا ہونے کے علاوہ بھی کُچھ ہو سکتا ہے۔