آج اس شہر میں، کل نئے شہر میں، بس اسی لہر میں
اڑتے پتوں کے پیچھے اڑاتا رہا، شوقِ آوارگی
اس گلی کے بہت کم نظر لوگ تھے، فتنہ گر لوگ تھے
زخم کھاتا رہا، مسکراتا رہا، شوقِ آوارگی
کوئی پیغام گل تک نہ پہنچا مگر، پھر بھی شام و سحر
ناز بادِ چمن کے اٹھاتا رہا، شوقِ آوارگی
کوئی ہنس کے ملے، غنچۂ دل...