دل درد کے انوار سے پرنور بہت ہے
افسردہ روی پر بھی جو مسرور بہت ہے
افسوس کہے وعدہ خلاف اس کو زمانہ
دنیا کے رواجوں سے جو مجبور بہت ہے
بڑھ جائے گا غم صبحِ منور کی جھلک سے
قسمت میں ہماری شبِ دیجور بہت ہے
اٹھلا کے چلے بادِ صبا صحنِ چمن میں
نسبت میں گلابوں کی وہ مغرور بہت ہے
آئینِ عنایات بھلا حسن...