ہمارا دل ہے یوں قصر جہاں میں
وہ پتھر۔ جو کہیں لگتا نہیں ہے
×××××××××××
کبھی یوں بھی ہوں رہے روبرو،میں نظر ملا کر کہہ سکوں
میری حسرتوں کا شمار کر، مری خوہشوں کا حساب دے
××××××××××××
اپنی اپنی کشتی لے کر یوں دریا میں کود پڑے
جیسے صرف جہاز ہی اس طوفان میں ڈوبنے والا تھا
××××××××××××
یوں...