محفلوں سے تنگ آکر تخلیے میں کاٹ دی
قید تنہائی کی ہم نے آئینے میں کاٹ دی
نیند کے مارے ہوؤں نے رتجگے میں کاٹ دی
زندگی کی رات ہم نے سوچنے میں کاٹ دی
ہجر تیرا اشک بن کر آنکھ میں پھرتا رہا
راحتوں کی عمر ہم نے المیے میں کاٹ دی
منزلِ ایقان تھی تشکیک کے دریا کے پار
اور ساری زندگی اک مخمصے میں کاٹ دی...