تو کیا صرف بلاول اور مریم بی بی ہی کتے رکھ سکتے ہیں ۔ کوئی اور نہیں ۔ عجیب بات ہے ۔ پاکستان میں ہزاروں لاکھوں لوگ اپنی حفاظت یا شوق میں پالتو کتے رکھتے ہیں ۔ اس میں کیا برائی ہے بھلا ؟؟
اپنے آپ کو اتنا ایکسپوز کر لیا ہے کہ لوگ ان کے جھوٹوں پر آنے والے وقتوں میں کتابیں لکھیں گے ۔ ہر طرح کی جعلسازی کتنے دھڑلے سے کرتی ہیں ۔ ان کے والد اور بھائیوں کو اب ان پر رحم کرنا چاہئے ۔ وہ ان کو بہت غلط طرح استعمال کر رہے ہیں ۔
اس پریس کانفرنس کا مقصد اپنے نئے فر کوٹ کی نمائش تھی ۔
پی پی پی کو اندازہ ہے کہ نون لیگ گڈ کوپ بیڈ کوپ کھیل کر پھر ساز باز کرے گی ۔ اس لیے وہ شہباز شریف کو بھی "گھسیٹ" کر اپنے ساتھ شہر شہر دھکے کھلائیں گے ۔ چچا جان آرام سے جیل سے تماشا دیکھ رہے ہیں۔ مجال ہے ایک بھی سخت بیان دیا ہو۔
آج تک ملک کے چاروں صوبے کے لوگ آپس میں اردو میں بات چیت کرتے ہیں ۔ اچکزئی کو بھی جلسے میں اردو ہی بولنا پڑتی ہے۔ اقبال کی عظمت کا مقابلہ ٹیگور سے کرنا اور اردو کو نہ ماننا تعصب کے باعث تھا ۔ آج تک پاکستان اور بنگلہ دیش میں کتنے لوگوں کو انگریزی آتی ہے؟
مغرب نے تمام تخریبی کام پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں کر ڈالے اور سبق حاصل کیا ۔ ناروے کی آبادی اگر 22 کروڑ اور تعلیم 40-50 فیصد ہوتی تو ہم سے بھی برے حالات ہوتے۔
صدیق سالک کی کتاب " میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا" میں تمام واقعات درج ہیں ۔ قائد اعظم کی غلطی تو غالبا نہیں تھی ۔ آخر کو رابطے کی زبان تو چاہئے تھی۔ کلکتہ کو اپنا ثقافتی قبلہ سمجھنا، دونوں حصوں میں فاصلہ، تعصب، غربت اور دشمن کا ہمہ وقت ان کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے کی تگ و دو وغیرہ اصل مسائل تھے ۔