ہر حال میں ان کی موجِ کرم تھی چارہ گرِ ادبار و الم
حد سے گزری جب تلخی ء غم ، لطفِ شہِ بطحا اور ہوا
اندازِ پذیرائی سے ہوا رنگ ان کی محبت کا گہرا
رحمت کے دریچے اور کھلے ، مدحت کا تقاضا اور ہوا
حفیظ تائب
خوبصورت انتخاب ہے شاہ صاحب۔
لیکن یہ غزل یہاں بھی ارسال کی جا چُکی ہے ۔
تاہم آپ کا بھی شکریہ کچھ خاص بات تو بہرحال ہے اس غزل میں کہ بار بار شریک محفل ہو جاتی ہے ۔:)
ختم ہو جنگ خرابے پہ حکومت کی جائے
آخری معرکہ صبر ہے عجلت کی جائے
ہم نہ زنجیر کے قابل ہیں نہ جاگیر کے اہل
ہم سے انکار کیا جائے نہ بیعت کی جائے
مملکت اور کوئی بعد میں ارزانی ہو
پہلے میری ہی زمیں مجھ کو عنایت کی جائے
یا کیا جائے مجھے خوش نظری سے آزاد
یا اِسی دشت میں پیدا کوئی صورت کی جائے...
اوہو۔۔اتنی اہم اور پرمسرت خبر سے ہم کیوں بےخبر رہے ۔۔!
خیر دیر آید درست آید :)
ہماری طرف سے بھی شاندار کامیابی پر ڈھیروں ڈھیر دلی مبارکباد قبول کریں ۔
ہماری دُعا ہے کہ آپکی شاندار کامیابیوں کا یہ سلسلہ یونہی جاری رہے ۔آمین
جیتے رہیں ۔:)
مطلع پڑھ کر وہ شعر یاد آیا کہ
زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانے کس جُرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں
عمدہ انتخاب ہے ۔
اتنے حصّوں میں بٹ گیا ہوں میں
میرے حصّے میں کچُھ بچا ہی نہیں
واہ ۔۔کیا بات ہے ۔
آپ دونوں کو زندگی کا یہ نیا سفر بہت بہت مبارک ہو ۔ :)
ہماری دعا ہے کہ اللہ آپ دونوں کو ہمیشہ خوش و خرم شاد آباد رکھیں ۔اور بُری نظر سے محفوظ فرمائیں ،آمین الہی آمین۔
بنام طاقت کوئی اشارہ نہیں چلے گا
اُداس نسلوں پہ اب اجارہ نہیں چلے گا
ہم اپنی دھرتی سے اپنی ہر سمت خود تلاشیں
ہماری خاطر کوئی ستارہ نہیں چلے گا
حیات اب شام غم کی تشبیہ خود بنے گی
تمہاری زلفوں کا استعارہ نہیں چلے گا
چلو سروں کا خراج نوک سناں کو بخشیں
کہ جاں بچانے کا استخارہ نہیں چلے گا...