بام مقصد پر تمناؤں کے زینے پہنچے
لب ساحل پہ نصیر ان کے سفینے پہنچے
جن کو خدمت میں بلایا تھا نبی نے، پہنچے
جان و دل، ہوش وخرد، سب تو مدینے پہنچے
تم نہیں چلتے رضا سارا تو سامان گیا
کوئی دنیائے عطا میں نہیں ہمتا تیرا
ہو جو حاتم کو میسر یہ نظارا تیرا
کہہ اٹھے دیکھ کے بخشش میں یہ رتبہ تیرا
واہ کیا جود و کرم ہے شہ بطحہ تیرا
نہیں سنتا ہی نہیں مانگنے والا تیرا
پیر صاحب کی کیا ہی بات ہے