نتائج تلاش

  1. سندباد

    ایک جانب چاندنی - احمد فواد

    اداسیوں نے بنائے ہیں گھونسلے اس میں مسرّتوں سے کبھی سر ہوا نہ دل کا درخت بہار آئی کئی بار اس طرف لیکن تمہاری یاد سے جانبر ہوا نہ دل کا درخت تمہارے جاتے ہی وہ دور اس کا ختم ہوا پھر اُس کے بعد تناور ہوا نہ دل کا درخت خزاں سے اپنے تعلق پہ اس کو ناز رہا کبھی بہار کا نوکر ہوا نہ دل کا...
  2. سندباد

    ایک جانب چاندنی - احمد فواد

    صحرا میں گھومنے کا مجھے یونہی شوق ہے میں نے تمہارے عشق کا دعویٰ نہیں کیا رہتی تھی اس میں ایک محبت کی کائنات دل توڑ کے یہ آپ نے اچھا نہیں کیا جاں دے کے اور ہو گئے ہم لوگ سرخرو گھاٹے کے کاروبار میں گھاٹا نہیں کیا دنیا تو مل رہی تھی یہاں کوڑیوں کے مول ہم نے ہی اپنے عشق کا سودا نہیں...
  3. سندباد

    ایک جانب چاندنی - احمد فواد

    اس لڑکیوں کی بھیڑ میں لیلیٰ نہیں کوئی مجنوں بہت ہیں شہر میں صحرا نہیں کوئی ہاتھوں میں ہاتھ دے کے یہاں گھومتے ہیں یہ اب زندگی سے موت کا جھگڑا نہیں کوئی اب آپکی نگاہ کسی اور سمت ہے اچھا ہے دل کے جانے کا خطرہ نہیں کوئی کیا بات ہے وہ سارے دِوانے کدھر گئے چرچا تمہارے حُسن کا کرتا نہیں...
  4. سندباد

    ایک جانب چاندنی - احمد فواد

    وہ مہر منور ہے کہ یہ ماہ مبیں ہے پہلے کی طرح آج بھی تو سب سے حسیں ہے افلاک سے باقی نہیں اس کا کوئی رشتہ بس آج سے یہ ساری زمیں میری زمیں ہے اس ارض و سما پر ہے ہمارا بھی کوئی حق یہ آپ کے اجداد کی میراث نہیں ہے فرھاد کے گھر سے نہیں میرا بھی تعلق تیرا بھی کوئی چال چلن ٹھیک نہیں ہے...
  5. سندباد

    ایک جانب چاندنی - احمد فواد

    کہیں پہ جاکے محبت کو دفن کردوں گا پھر اُس کی قبر کو آہوں سے اپنی بھردوں گا سب آسمان و زمیں آج سے تمہارے ہیں یہ کائنات میں اب تیرے نام کردوں گا خزاں کے ڈر سے یہ چہرہ اگر ملول ہوا کہیں سے لاکے نئے رنگ اس میں بھردوں گا جو جل رہا ہوں تری آگ میں یہ کافی ہے میں خشک پیڑ ہوں کیا پھول کیا...
  6. سندباد

    ایک جانب چاندنی - احمد فواد

    جب اونچے پہاڑوں سے اتر آتے ہیں دریا کاندھوں پہ سمندر کو اٹھالاتے ہیں دریا لگتے ہیں مگر ہم سے جنوں پیشہ کہاں ہیں صحراؤں میں جاتے ہوئے گھبراتے ہیں دریا سرگوشیاں کرتے ہوئے دن رات اچانک رستہ میں کوئی آئے تو چلّاتے ہیں دریا ہر وقت کی اس دوڑ سے تھک ہار کے اک روز پہلو میں سمندر کے سمٹ...
  7. سندباد

    ایک جانب چاندنی - احمد فواد

    دنیاکی کسی بات کا قائل تو نہیں ہوں اب بھی میں تری یاد سے غافل تو نہیں ہوں مجھ سے تو مناسب نہیں اس طرح کا برتاؤ عاشق ہوں تمہارا کوئی سائل تو نہیں ہوں کرلوں گا کسی روز یقینا تجھے تسخیر میں آج کے حالات سے بد دل تو نہیں ہوں لوگوں سے تو پہلے بھی تعلق نہیں رکھا میں آج بھی اس بھیڑ میں شامل...
  8. سندباد

    ایک جانب چاندنی - احمد فواد

    احمق ہیں جو کہتے ہیں محبت کی جگہ ہے دنیا تو فقط اہلِ تجارت کی جگہ ہے فرعونوں کی بستی ہے یہاں دب کے نہ رہنا نخوت کی تکبّر کی رُعونت کی جگہ ہے ظاہر ہے یہاں تم بھی کبھی خوش نہ رہو گے اک درد کا مسکن ہے اذیّت کی جگہ ہے آسانی سے ملتی نہیں جینے کی اجازت پھر سوچ لو دنیا بڑی ہمّت کی جگہ...
  9. سندباد

    ایک جانب چاندنی - احمد فواد

    بھولے سے بھی آئے نہ کوئی چاہنے والا اس شہر میں ہے حسن کا دستور نرالا اک رات کی دھشت کا ٹھکانہ ہے مرا دل تم ڈھونڈنے آئے ہو کہاں دن کا اجالا میرا تو چلو ٹھیک ہے مجرم ہوں تمہارا ان چاند ستاروں کو یہاں کس نے اچھالا اس طرح سے ٹوٹیں گے اگر روز یہاں دل نکلے گا بہت جلد محبت کا دِوالہ...
  10. سندباد

    ایک جانب چاندنی - احمد فواد

    [align=justify:5902375a94] تمہارے لئےدل میں اب بھی جگہ ہے تمہیں کیاپتہ ہے تمہیں کیا خبر ابھی مجھ پہ طاری وہی اک نشہ ہے تمہیں کیاپتہ ہے تمہیں کیا خبر تمہیں قہقہوں کی کہانی سے مطلب ہے ہنستے رہو گے کہاں آنسوؤں کا چلا قافلہ ہے تمہیں کیا پتہ ہے تمہیں کیا خبر کوئی آسماں پر ستاروں کی شمعیں...
  11. سندباد

    ایک جانب چاندنی - احمد فواد

    نکلو گے مرے دل سے تو جل جاؤ گے فوراً اس دھوپ کی بستی میں کہاں چاند کا مسکن تم اٹھ کے ستاروں سے کہاں لڑنے چلے ہو میں نے تو کہی تھی فقط اک بات مذاقاً جس بات پہ کل دیدہ و دل ایک ہوئے تھے دونوں میں ہوئی آج اُسی بات پہ اَن بَن دنیا میں بھی اب چین سے رہنے نہیں دیتا جنّت سے بھی اک روز...
  12. سندباد

    ایک جانب چاندنی - احمد فواد

    مٹی سے اٹھا کر مجھے خورشید بنایا گو اہل نہ تھی اس کی کسی طور مری خاک تم روزِ ازل دے کے وچن بھول گئے ہو سہتی ہے ابھی تک ستم و جور مری خاک اس قید کی لعنت سے نکل جاؤں کسی طور دن رات لگاتی ہے بڑا زور مری خاک یہ وسعتِ افلاک تو میں ناپ چکا ہوں اب ڈھونڈنے جائے گی کہاں اور میری خاک یوں...
  13. سندباد

    ایک جانب چاندنی - احمد فواد

    دریاؤں کی گپ شپ کا نشہ ایسا چڑھا ہے سنتا نہیں اب کوئی سمندر کی کہانی لے ڈوبی یہ سورج سے ملاقات کی خواہش دوپل میں ہوئی ختم گلِ تر کی کہانی یہ ہنستی حکایت تو زمانہ کے لئے ہے تم آؤ سنو اب مرے اندر کی کہانی یوں ناز سے اس خاک پہ چلنا نہیں اچھا تم نے بھی سُنی ہوگی سکندر کی کہانی...
  14. سندباد

    ایک جانب چاندنی - احمد فواد

    چھپا ملا تھا جو اک خواب کی رداؤں میں وہ شہر میں نظر آیا کہیں نہ گاؤں میں الم نصیبو! یہ دکھ سارے بھول جاؤگے بڑا سکوں ہے محبت کی ٹھنڈی چھاؤں میں کہیں پہ دھوپ میں صورت تری نظر آئی جھلک ملی ہے کبھی بھاگتی گھٹاؤں میں نہ اب وہ گالوں میں ہنستے ہوئے گلاب رہے نہ اب وہ کاٹ رہی ہے تری...
  15. سندباد

    ایک جانب چاندنی - احمد فواد

    میں سوچتا تھا کسی دن تجھے بھلا دوں گا یہ انتظار کے سارے دئے بجھا دوں گا تمہارے بعد بھی رونق لگی ہوئی ہے یہاں ذلیل شہر کو اب آگ میں لگا دوں گا ہمیشہ آتے ہیں اس سے مری زمیں پہ عذاب اس آسماں کو یہاں سے کہیں ہٹا دوں گا ہمارے بیچ زمانہ اگر کبھی آیا یہاں پہ خون کی میں ندیاں بہا دوں گا...
  16. سندباد

    ایک جانب چاندنی - احمد فواد

    سوال ایک تھا لیکن ملے جواب بہت پڑھی ہے میں نے محبت کی یہ کتاب بہت گئی بہار تو پھر کون حال پوچھے گا کرو نہ چاھنے والوں سے اجتناب بہت یہ آسمان و زمیں سب تمہیں مبارک ہوں مرے لئے ہے یہ ٹوٹا ہوا رباب بہت یہاں پہ دیکھو ذرا احتیاط سے رہنا ملے ہیں پہلے بھی اس خاک میں گلاب بہت میں جانتا...
  17. سندباد

    ایک جانب چاندنی - احمد فواد

    چاند تارے ناچتے ہیں دف بجا کر خواب میں یوں وہ سینہ سے لگا ہے مسکرا کر خواب میں جاگتے میں جس کو چھونا بھی نہیں ممکن مجھے چوم لیتا ہوں میں اُس کو روز جاکر خواب میں کیسی کیسی اونچی دیواروں کا پہرہ توڑ کر اُس کو لایا ہوں زبردستی اٹھا کر خواب میں وہ جو دن کی روشنی میں سامنے آتا نہیں...
  18. سندباد

    ایک جانب چاندنی - احمد فواد

    دل کہاں جائے بچارہ زندگی مشکل میں ہے ایک جانب چاندنی ہے ایک جانب زرد دھوپ چاہنے والے پریشاں ہیں کہ کس کا ساتھ دیں ایک جانب چاندنی ہے ایک جانب زرد دھوپ اس لئے دل چسپ لگتی ہے محبت کی کتاب ایک جانب چاندنی ہے ایک جانب زرد دھوپ خود کو پاگل پن سے کیسے دور رکھ سکتا ہوں میں ایک جانب...
  19. سندباد

    ایک جانب چاندنی - احمد فواد

    جانتا ہوں میں یہ سورج کا دیا بجھ جائے گا ہر طرف پھر رات کا آنچل کوئی لہرائے گا پھر مرے دل میں کھلیں گے زرد لمحوں کے گلاب بے طرح پھرسے وہی ظالم مجھے یاد آئے گا آسمانوں سے پرے منزل بلاتی ہے کوئی تو مجھے کب تک یہاں اس خاک میں بہلائے گا دل کو ان باتوں سے کوئی فرق تو پڑتا نہیں شوق سے کل...
  20. سندباد

    ایک جانب چاندنی - احمد فواد

    محبت پر یہاں پہرہ رہے گا تو اس دنیا میں کوئی کیا رہے گا تری محفل سے اٹھ کر جارہے ہیں نہ ہم ہوں گے نہ یہ جھگڑا رہے گا رہے آنکھوں کی یہ جوڑی سلامت ہمیشہ دل میں یہ مجمع رہے گا بچھڑنا تیرا ایسا سانحہ ہے سدا ہونٹوں پہ یہ قصّہ رہے گا سدا اغیار کی باتیں سنیں گے سدا احباب سے ملنا رہے...
Top