ظہیراحمدظہیر ! بالکل۔۔۔ اب ہر روز جینا بھی نعمت ہے۔۔۔میری زندگی میں یہ پہلا برس ہے کہ میں سوچنے پر مجبور ہوں کہ اب تک پاکستان چھوڑنے کے ملنے والے سارے موقعے گنوانا ماسوائے بیوقوفی کے کچھ نہ تھا۔
غمناک! میں تو آپ کی اس بات پر کچھ کہہ بھی نہیں سکتا ، ذو القرنین ۔ صورتحال کو سمجھتا ہوں ۔ حالات ایک طویل عرصے سے بتدریج خراب ہوتے آرہے ہیں ۔ بہت سالوں پہلے جب میں نے ملک چھوڑا تھا تو والدہ کا دل بہت دکھا تھا اور بہت اداس تھیں ۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔ جب بھی فون پر بات ہوتی تو واپس آنے کا کہا کرتی تھیں ۔ لیکن چند سالوں بعدبدلتی صورتحال دیکھ کر وہ بھی کہنے پر مجبور ہوگئیں کہ اب پاکستان واپسں نہ آنا ۔ وہیں رہنا اور فیملی کو سپورٹ کرتے رہنا۔
پڑھی نظم۔۔۔ دل اور گرفتہ ہوگیا۔۔۔۔ میرا اس کا غم سانجھا تھا۔۔۔ میں اس کو کیسے بہلاتا۔۔۔۔ اماں سے میں بھی دور ہوں۔۔۔ دو تین ماہ میں چند دن ملاقات ہوجاتی ہے۔۔۔۔ اس کا ذائقہ اگلی ملاقات تک رہتا ہے۔۔۔۔
سب سے بڑھ کر ۔۔۔۔۔ میں یہ کہنے پر مجبور ہوگیا ہوں ۔۔۔۔ کہ پاکستان اب شرافت سے زندگی گزارنے کے قابل نہیں رہا۔۔۔۔ اگر یہاں رہنا ہے تو اپنا ایک بیٹا فوج میں۔۔۔ دوسرا پولیس میں تیسرا عدلیہ میں شامل کریں۔۔۔ اور اس کے بعد چاہیں تو دن رات حرامزدگی کا باجا بجائیں۔۔۔
اللہ کریم اپنا رحم فرمائیں اور پاکستان کو بہتری کی راہ پر ڈال دیں ۔ آمین ۔ اب تو بس دعائیں ہی کی جاسکتی ہیں ۔
کیا سنائیں تمہیں اُس شہرِ یقیں کے حالات
لوگ کہتے ہیں کہ امید اٹھالی جائے!