آپ کچھ بھی کہیں۔۔۔ لیکن مزا اذان کے ساتھ روزہ بند کرنے اور کھولنے کا ہی ہے۔۔۔ دو سال قبل ایک گھر میں رہتا تھا۔ وہاں اذان کی آواز نہیں آتی تھی۔۔۔ بڑا مشکل رمضان گزارا وہاں۔۔۔۔
انگلینڈ میں رمضان میں سب زیادہ مشکل ۔۔ کہ اذان کی آواز نہیں ۔سچ کہا نین بھیا اذان کی آواز کے بغیر بہت مشکل رمضان ۔۔ہر اُس ملک میں جہاں اذان کی آواز نہیں آتی ۔۔۔
مزا اپنی جگہ لیکن مقصد یہ شعور اجاگر کرنا ہے کہ اذان کا تعلق سحری یا افطار سے نہیں بلکہ نماز سے ہے۔ سحری کا وقت ختم ہونے کے بعد فجر کی اذان کا وقت شروع ہوتا ہے اور اذان لیٹ بھی ہو سکتی ہے اور تب تک کھانا پینا جاری رہتا ہے بلکہ کچھ لوگ تو اذان کے ختم ہونے تک کھانا پینا جاری رکھتے ہیں۔ قرآن پاک میں بھی وقت بتایا گیا ہے اس لیے اصل مدار وقت پر ہے، اذان پر نہیں۔
کھانے دیں۔۔۔ کھلانے والا کھلا رہا ہے۔۔۔ قبول کرنے والا قبول کر رہا ہے۔۔۔ کس کے دل میں کیا چل رہا ہے۔۔۔ وہ سب سے باخبر ہے۔۔۔اگر کوئی اپنی بےخبری میں خوش ہے تو خوش رہنے دیں اسے۔۔۔ کیوں آگہی کا بوجھ لادتے ہیں اس پر۔۔۔ کیا معلوم وہ اپنے رب کو ایسے ہی اچھا لگتا ہو۔۔۔
کیا خوب بات کی نین بھیا ؎کیا معلوم کون رب کو کیسے اچھا لگتا ۔۔دعائے کمیل کہ یہ جملے یاد آگئے ۔۔اے اللہ اور میرے مالک! تو نے میری کتنی ہی برائیوں کی پردہ پوشی کی، تو نے مجھ پر سے کتنی ہی سخت بلاؤں کو ٹال دیا، تو نے مجھے کتنی ہی لغزشوں کی رسوائی سے بچا لیا، تو نے مجھ سے بے شمار ناگوار آفات کو دور کیا اور کتنی ہی ایسی خوبیاں جن کا میں اہل بھی نہ تھا ، لوگوں میں مشہور کر دیں۔
عموماً تو رمضان میں فجر کی اذان عین اُسی وقت ہوتی ہے جب سحری کا وقت ختم ہوتا ہے (آج کل بھی ہمارے ہاں یہی دیکھنے کو مل رہا ہے) لیکن یہ بات درست ہے کہ اصل اعتبار وقت کا ہے اذان کا نہیں ہے۔
باقی یہ ہے کہ اگر سحری کے اختتام اور اذان کے وقت میں فرق ہو تو اسے ہلکا نہیں لینا چاہیے۔ جب ہم رب کی خوشنودی کے لئے کوئی عبادت کرتے ہیں تو پھر اُسے مکمل اہتمام سے انجام دینا ہی زیادہ بہتر ہے۔