دهلی كی مشهور غالب اكیڈمی كی ادبی نشست میں 12 نومبر بروز سنیچر بحیثیت شاعر شریك هوا۔ جس كی صدارت پروفیسر شریف قاسمی نے كی۔ متین امروہوی، احمد علی برقی اعظمی اور كے ایل نارنگ ساقی جیسی ادبی شخصیات بھی موجود تھیں۔ نیز اس ادبی نشست میں ہمسایه ملك سے آئے هوئے مهمان شاعر زعیم رشید بھی شریك هوئے، جو محبوب الٰهی حضرت نظام الدین اولیاء كے آستانه كی حاضری كیلئے آئے هوئے تھے۔
واضح هو كه یه میراپهلا اسٹیج پروگرام تھا۔
سلام مسنون!
آپ تمام احباب سے خصوصی دعاؤں کی درخواست ہے، ادھر کچھ دنوں سے ذہنی تناؤ کا شکار ہوں۔ دعا فرمائیں اللٰہ تعالیٰ اپنے حبیب پاک ٌﷺ کے طفیل میں میری مشکلات آسان فرمائے، آمین ۔
تمہیں کھو کر تو مرے پاس رہا کچھ بھی نہیں
تم سمجھتے ہو مرے ساتھ ہوا کچھ بھی نہیں
ہجر میں چھن گئیں خوشیاں سبھی مجھ سے آخر
اور قیامت ہے کہ اشکوں کے سوا کچھ بھی نہیں فاخر
فسونِ حسن سے جلا ملے سخن کو دلربا
اسد کی ہے غزل کوئی تو میر کی زبان ہے
ببیں تماشہء حسین در زبان لشکری
جمیل کی تو گفتگو کلیم کا بیان ہے فاخر
(جمیلؔ مظہری اور کلیم عاجز مرحوم صوبہ بہار، انڈیا کے قد آور اور مسلم الثبوت شاعر ہیں )
ساقى سے خطاب:
اے میکدہ کے میزباں، اے دلربا و دل نشیں
جدا ترا ہے بانکپن،نرالی سب سے شان ہے
چہار سمت دلکشی تجھی سے ہے یہ دم بدم
تو بزم کی ھے آبرو، تو شاعری کی جان ہے فاخر
آج کل دہلی میں اتنی سخت گرمی پڑ رہی ہے کہ کم بخت ’’آمد‘‘ کی بتی بھی گل ہوگئی ۔ گرمی کا اچھا خاصا اثر ’آمد ‘ پر پڑا ہے۔ گرچہ گزشتہ ہفتے بارش ہوئی تھی، لیکن یہ بارش ناکافی ثابت ہو رہی ہے ۔ بارش کی دعا کیجئے تاکہ تن من بارش سے بھیگ جائے ۔