راجیش کھنہ کی موت پر میڈیا کا ماتم

محمد بلال اعظم

لائبریرین
552665_475653939111303_1202553199_n.jpg
 

imsabir

محفلین
بالکل ٹھیک کہا گیا ہے اس کالم میں۔ پاکستانی میڈیا پتہ نہیں کس کی ترجمانی کر رہا ہے۔ انڈیا اور امریکا میں اگر کوئی کُتا بھی مرے اس خبر کو بریکینگ نیوز بنا دیتے ہیں لیکن برما میں ہزاروں بے گنا مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹا جارہا ہے۔ اس کی کوئی خبر ہمارے میڈیا میں نظر نہیں آتا۔ کیا مسلمان کا خون اتنا سستا ہوگیا ہے کہ اس پر افسوس کرنے والا بھی کوئی نہیں ہے۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
کامل خان آپ پوسٹ کو غیر متفق تو کر دیتے ہیں مگر وجہ نہیں بتاتے۔
اس تضاد کی وجہ کیا ہے؟
اگر آپ کو کوئی اختلاف ہے تو اس کو مناسب طریقے سے سب کے سامنے لایا کریں۔
ا طرح اپنا امیج کیوں خراب کرتے ہیں۔
 

عسکری

معطل
اسے پاکستانی میڈیا کہنا ہی غلط ہے ۔ نیو یورک میں بمبئی میں منیلا میں اور کئی بڑے میٹرو شہروں میں روزانہ 20-30 قتل ہوتے ہیں پر ہمارا میڈیا اسطرح وبال بنا رہا ہے جیسے کراچی ہی دنیا کا خونی شہر ہے ۔ اب انویسٹر بھاگ رہے ہیں ۔ اسی طرح پھچلے کئی مہینوں سے انڈیا بنگلہ دیش کی تعریفوں میں زمین آسمان ایک کر رکھی تھی اکانومی میں جو کہ بالکل غلط فیگرز کے ساتھ پیش کی جاتی ۔ پاکستان میں چھوٹی سی بات کو بڑھا چڑھا کر اسطرح پیش کرتے ہیں جیسے کہ پاکستان کا اینڈ ابھی ہے ۔ ان کو لگام نا ڈالی گئی تو نتائج برے نکلیں گے ۔
 

زبیر مرزا

محفلین
اینٹی پاکستانی میڈیا کہیں ہر بُری خبر پاکستان کے بارے میں بلاتحقیق پیش کرنے اور مایوسی پھیلانے میں پیش پیش ہے
خدا جانے ان کے مالکان اور کام کرنے والوں کو کون اس منفی اور مایوس کن مواد کون فراہم کرتا ہے اور کیوں اپنے ہی ملک کی
جڑین کھوکھلی کرنے پر تُلے ہیں یہ لوگ-
محب علوی ذرا ادھر توجہ کریں اور اپنے تبصرے سے نوازیں
 
کل امریکہ میں کولاراڈو کے علاقے میں بیٹ مین فلم کے افتتاحی شو میں فائرنگ کے واقعہ میں 14 گورے جہنم رسید ہوئے۔ اس خبر کو ہمارے میڈیا نے خصوصی کوریج دی۔ جنگ اخبار نے اپنے صفحہ اول میں اس خبر کو نمایاں طور پر شائع کیا۔ امریکہ میں ایک کتا بھی مر جائے تو ہمارا میڈیا بے چین ہو جاتا ہے۔
 
میڈیا جتنا "آزاد" پاکستان میں ہے اتنا کم ہی دنیا میں ہوگا۔

بہت زیادہ پیسہ جانے کہاں کہاں سے اس میں لگ رہا ہے اور اپنے نت نئے روپ دکھا رہا ہے۔ ایک متحرک اور منصفانہ میڈیا محتسب وقت کی اہم ضرورت ہے کیونکہ بہت دفعہ اب میڈیا خواہش کو خبر کی شکل میں دکھاتا ہے اور غیر ضروری طور پر معمولی چیزوں کو انتہائی خاص اور ضروری بنا کر پیش کر رہا ہے جس سے نہ صرف غلط روش اور طریقہ کار نشو نما پا رہا ہے بلکہ لوگ اہم اور ضروری خبروں سے بھی محروم ہو رہے ہیں۔
 

عسکری

معطل
سب سے عجیب بات ہے انڈین فلموں فلمی اداکاروں اور موسیکاروں کی خبریں ایسے نشر کی جاتی ہیں جیسے یہ انڈیا ہے ۔ ہماری افواج پچھلے 65 سال سے جس دشمن سے پیکار ہیں ہم جس سے حالت جنگ میں ہیں ۔ ایل او سی پر اگر کسی کا جسم دشمن کو نظر آتا ہے تو ہندوستانی سنائپر لازمی اسے ٹارگٹ کرتے ہیں آج بھی ۔ انڈین فنکار فنکارائیں ہر سال بارڈر ایل او سی پر جا کر اپنی فوجوں کے حوصلے بڑھاتے ہیں اور پاکستان کو دشمن سمجھتے ہیں انہیں کو ہمارے میڈیا میں مائی باپ کا درجہ دے رکھا ہے جو کہ نہایت ہی شرمناک اور نفرت انگیز ہے میرے لیے ۔ ان چینلوں کا کوئی بندوبست نا کیا گیا تو بارڈر کی لکیر مٹانے پر تل جائیں گے ۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
علامہ اقبال نے درست فرمایا تھا

تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا نا پائیدار ہو گا

ہمیں ان سب سے نمٹنے کے لئے ایک ایسا لیڈر چاہیے جو علی الاعلان کہہ سکے کہ

میں اندھیری شب میں لے کے نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کو
شرر فساں ہوگی آہ میری، نفس میرا شعلہ بار ہوگا
 

کامل خان

محفلین
برما میں ہونے والے مظالم کا کوئ ثبوت نہیں ہے ۔ جعلی تصویروں کو میں پہلے ہی بے نقاب کر چکا ہوں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ "پاکستانیوں" (جی ہاں ، صرف اور صرف پاکستانیوں) کو ہی اسکا درد ہے باقی اثررسوخ والے اسلام کے ٹھیکیدار عرب اور بقیہ دنیا کے مسلمانوں کو اس سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستانیوں کو ساری دنیا کے مسلمانوں کا غم دن رات ستاتا ہے سوائے خود دن رات قتل ہونے والے ہموطنوں پر ہونے والے ظلم کے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ یہ ظلم تو خود اپنے مسلمان بھائ کر رہے ہیں۔ بلوچستان میں دن رات بلوچوں، پنجابیوں اور شیعوں کو مارا جا رہا ہے۔ گلگت ، بلتستان میں کتنے سالوں اور مہینوں سے خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے۔ پچھلے دس سال میں طالبان نے پاکستان کے مختلف شہروں، بازاروں، مسجدوں میں ہزاروں پاکستانی قتل کئے ہیں ۔۔لیکن ان کو ردعمل کے کھاتے میں ڈال کر معافی دے دی جاتی ہے۔
دوسروں کو دوہرے معیار کی دہائ دیتے ہو ، کبھی خود اپنے دوہرے معیار نظر آئے ہیں؟؟؟
 

شمشاد

لائبریرین
لو جی ساری دنیا جھوٹ بول رہی ہے اور کامل خان صاحب سچ کہہ رہے ہیں وہ ساری تصاویر جھوٹی ہیں۔ ہُہن کی کریئے۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
میری اپنی سمجھ میں بھی نہیں آتا کہ کامل خان صاحب کس بنیاد پہ ان سب کو جھوٹ قرار دے رہے ہیں۔ گوگل پہ نیوز میں سرچ کر لیں، امیجز دیکھ لیں، بلاگز وزٹ کر لیں، یوٹیوب، فیس بک جو مرضی دیکھ لیں۔
کیا سارے ہی جھوٹے ہیں؟
 

طالوت

محفلین
ڈبل اسٹینڈرڈز ہیں میڈیا کے بھی اور ہمارے بھی۔

برما میں جو کچھ چند ہفتوں میں غیر مسلموں کے ہاتھوں مسلموں سے ہوا ہے وہ ہم مسلموں کے ہاتھوں مسلموں سے دہائیوں سے ہو رہا ہے ، برمی مسلمانوں کی تعداد ابھی بھی پاکستانی مسلمانوں کی گزشتہ ایک دہائی میں مرنے والے مسلمانوں کی تعدادسے کم ہے ۔ بہرحال ہر معاملے کی اپنی اہمیت ہے۔
 

علی خان

محفلین
میں یہاں پر جنگ اخبار کی ایک سرخی شئیر کروا رہا ہوں، میرے خیال سے یہ تعدار ہزاروں یا لاکھوں میں نہیں ہے، مگر ہاں یہ سچ ہے، کہ وہاں کے مسلمانوں پر ظلم ہو رہاہے۔
 

میر انیس

لائبریرین
لو جی ساری دنیا جھوٹ بول رہی ہے اور کامل خان صاحب سچ کہہ رہے ہیں وہ ساری تصاویر جھوٹی ہیں۔ ہُہن کی کریئے۔
شمشاد یہ بات سچ ہے کہ ہمارے کچھ چینلز دیکھ کر یہ لگتا ہی نہیں ہ کہ یہ پاکستانی چینلز ہیں یا ہندوستانی آئے دن ہندوستانی شوز فلمیں اور مختلف پروگرام چلتے رہتے ہیں اور تو اور خاص عید بقر عید پر ہندوستانی فلمیں اور ورائٹی پروگرام دکھائے جاتے ہیں لیکن شاید یہ انکی کاروباری مجبوری ہے کیوں کہ وہ وہی دکھاتے ہیں جو لوگ دیکھنا چاہتے ہیں۔ جبکہ اگر وہ حب الوطنی کا ثبوت دیں تو انکو وہ دکھانا چاہیئے جو اسوقت کی ضرورت ہے۔ یہاں تو یہ ہوتا ہے کہ آنحضرت (ص) پر بننے والی فلم دی میسیج اسوقت آرہی ہے جیو ٹی وی پر اور ایک دم سے ایسے اشتہار آنا شروع ہوجاتے ہیں جن میں ناچ گانا دکھایا جارہا ہوتا ہے یعنی معرفت کی اتنی زیادہ کمی ہے کہ ایک دفعہ میں نے پروگرام دیکھا جس میں آپ (ص) کی سیرت طیبہ پر روشنی ڈالی جارہی تھی۔ اور اچانک ہارپک کا اشتہار شروع کردیا گیا جس میں ابتدا ہی کموڈ دکھا کر کی گئی جو لوگ اپنے کاروبار کا اشتہارات سے ہونے والی کمائی کا اتنا خیال کریں کے اسمیں یہ بھول جائیں کہ انکے دین کے پیشوا کی بے حرمتی تو نہیں ہورہی ان سے آپ کیا یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ دین کو اتنی اہمیت دینے لگیں گے ۔
پر میں کامل خان کی اس بات سے متفق ہوں کہ ہم دوسروں پر تو فوراََ انگلی اٹھانے کو تیار ہوجاتے ہیں جبکہ اپنے گریبان میں نہیں جھانکتے ۔ یہاں روز ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو خون میں نہلا رہا ہے وہ بھی بے انتہا تشدد کے بعد ۔ یہ بات تو صحیح ہے کہ برما میں مسلمانوں پر بہت ظلم ہورہا ہے جس پر مسلم حکمرانوں کی بے حسی قابلِ مذمت ہے پر کیا اگر ایک مسلمان ملک میں ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو قتل کرے تو وہ اس سے بڑا گناہ نہیں کہ ایک غیر مسلم کافر ایک مسلمان کا قتل کرے ارے بھائی برما میں تو پھر بطھی ایک خاص مقصد کو لے کر مسلمانوں پر ظلم کیا جارہا ہوگا نا یہاں تو ایک موبائل کے پیچھے قتل ہوجاتے ہیں کراچی میں کبھی دس کبھی پندرہ مسلمان (ہندو یا عیسائی نہیں ) خون میں نہلائے جاتے ہیں نا مارنے والے کو پتہ کہ میں نے کیوں مارا نہ مرنے والے کو پتہ کہ مجھ کو کیوں مارا جارہا ہے ۔ یہاں بہت سی اسلامی جماعتیں ہیں جو اس بات پر تو بہت واویلا مچاتی ہیں کہ فلاں جگہ مسلمانوں پر قتل ہورہا ہے اور فلاں جگہ مسلمانوں پر ظلم ہورہا ہے پر اگر انکی توجہ ایک خاص سوچ رکھنے والے مسلمان گروہ کے خود کش حملوں اور شرپسندی کی طرف دلائی جاتی ہے تو وہ اسکی وجہ ڈرون حملوں اور حکومتی کارندوں کی امریکہ حمایت بیان کرتے ہیں۔ ایران جانے والی زائرین کی پوری پوری بسیں خون میں نہلادی جاتی ہیں سانحہ چلاس بھی کسی طرح بھی برما میں ہونے والے ظلم سے مختلف نہیں مگر کیا اس پر کوئی بھی اسلامی تنظیم یا کسی اسلامی جماعت نے مظاہرہ کیا امت کا نام نہاد درد رکھنے والے اخبار نے کوئی فیچر لکھا۔ ہم لوگوں کو بھی تو یہ دوہرا معیار ختم کرنا چاہیئے
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
شمشاد یہ بات سچ ہے کہ ہمارے کچھ چینلز دیکھ کر یہ لگتا ہی نہیں ہ کہ یہ پاکستانی چینلز ہیں یا ہندوستانی آئے دن ہندوستانی شوز فلمیں اور مختلف پروگرام چلتے رہتے ہیں اور تو اور خاص عید بقر عید پر ہندوستانی فلمیں اور ورائٹی پروگرام دکھائے جاتے ہیں لیکن شاید یہ انکی کاروباری مجبوری ہے کیوں کہ وہ وہی دکھاتے ہیں جو لوگ دیکھنا چاہتے ہیں۔ جبکہ اگر وہ حب الوطنی کا ثبوت دیں تو انکو وہ دکھانا چاہیئے جو اسوقت کی ضرورت ہے۔ یہاں تو یہ ہوتا ہے کہ آنحضرت (ص) پر بننے والی فلم دی میسیج اسوقت آرہی ہے جیو ٹی وی پر اور ایک دم سے ایسے اشتہار آنا شروع ہوجاتے ہیں جن میں ناچ گانا دکھایا جارہا ہوتا ہے یعنی معرفت کی اتنی زیادہ کمی ہے کہ ایک دفعہ میں نے پروگرام دیکھا جس میں آپ (ص) کی سیرت طیبہ پر روشنی ڈالی جارہی تھی۔ اور اچانک ہارپک کا اشتہار شروع کردیا گیا جس میں ابتدا ہی کموڈ دکھا کر کی گئی جو لوگ اپنے کاروبار کا اشتہارات سے ہونے والی کمائی کا اتنا خیال کریں کے اسمیں یہ بھول جائیں کہ انکے دین کے پیشوا کی بے حرمتی تو نہیں ہورہی ان سے آپ کیا یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ دین کو اتنی اہمیت دینے لگیں گے ۔
پر میں کامل خان کی اس بات سے متفق ہوں کہ ہم دوسروں پر تو فوراََ انگلی اٹھانے کو تیار ہوجاتے ہیں جبکہ اپنے گریبان میں نہیں جھانکتے ۔ یہاں روز ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو خون میں نہلا رہا ہے وہ بھی بے انتہا تشدد کے بعد ۔ یہ بات تو صحیح ہے کہ برما میں مسلمانوں پر بہت ظلم ہورہا ہے جس پر مسلم حکمرانوں کی بے حسی قابلِ مذمت ہے پر کیا اگر ایک مسلمان ملک میں ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو قتل کرے تو وہ اس سے بڑا گناہ نہیں کہ ایک غیر مسلم کافر ایک مسلمان کا قتل کرے ارے بھائی برما میں تو پھر بطھی ایک خاص مقصد کو لے کر مسلمانوں پر ظلم کیا جارہا ہوگا نا یہاں تو ایک موبائل کے پیچھے قتل ہوجاتے ہیں کراچی میں کبھی دس کبھی پندرہ مسلمان (ہندو یا عیسائی نہیں ) خون میں نہلائے جاتے ہیں نا مارنے والے کو پتہ کہ میں نے کیوں مارا نہ مرنے والے کو پتہ کہ مجھ کو کیوں مارا جارہا ہے ۔ یہاں بہت سی اسلامی جماعتیں ہیں جو اس بات پر تو بہت واویلا مچاتی ہیں کہ فلاں جگہ مسلمانوں پر قتل ہورہا ہے اور فلاں جگہ مسلمانوں پر ظلم ہورہا ہے پر اگر انکی توجہ ایک خاص سوچ رکھنے والے مسلمان گروہ کے خود کش حملوں اور شرپسندی کی طرف دلائی جاتی ہے تو وہ اسکی وجہ ڈرون حملوں اور حکومتی کارندوں کی امریکہ حمایت بیان کرتے ہیں۔ ایران جانے والی زائرین کی پوری پوری بسیں خون میں نہلادی جاتی ہیں سانحہ چلاس بھی کسی طرح بھی برما میں ہونے والے ظلم سے مختلف نہیں مگر کیا اس پر کوئی بھی اسلامی تنظیم یا کسی اسلامی جماعت نے مظاہرہ کیا امت کا نام نہاد درد رکھنے والے اخبار نے کوئی فیچر لکھا۔ ہم لوگوں کو بھی تو یہ دوہرا معیار ختم کرنا چاہیئے

میں آپ کی بات سے بالکل متفق ہوں۔
یہاں قصور عوام کا ہے۔ عوام کیوں بار بار ان نا اہل لیڈروں کو منصبِ اقتدار پہ بٹھاتے ہیں۔ ایک آٹے کی بوری پہ یہ قوم بک جاتی ہے۔
مگر ہم میڈیا کو اس معاملے سے بری نہیں کر سکتے۔ عوام اسی بات کو سچ مانتی ہے جو میڈیا کہتی ہے۔ جیو، ایکسپریس وغیرہ کا ہماری عوام پہ بہت گہرا اثر ہے۔
جتنے پروگرام ہمارا میڈیا انڈین فنکاروں اور فنکاراؤں کی سالگرہ یا یومِ وفات پہ چلاتا ہے کیا ہمارے قومی لیڈرز کے یومِ پیدائش یا یومِ وفات پہ چلاتا ہے۔
ابھی چند دن پہلے مادرِ ملت کی برسی تھی، ہمارے میڈیا نے کتنا اس چیز کو دکھایا۔ جب ہماری نسل کو ہمارے لیڈرز کا ہی نہیں پتہ ہوگا تو ہم کیا خاک ترقی کریں گے۔
ہماری نئی نسل کی ایک بڑی تعداد منی، شیلا کے نام سے تو واقف ہے مگر اُن کے یہ نہیں پتہ کہ ہمارا نظریہ کیا ہے، قائد اعظم اور علامہ اقبال نے ہمیں کیا پیغام دیا ہے، کونسی راہ ہمارے لئے متعین کی ہے۔
اگر ہم اب بھی اپنے لیڈرز کی باتوں پہ عمل کریں تو ہم ناصرف سچے مسلمان اور پاکستانی بن جائیں گے بلکہ اپنا کھویا ہوا وقار بھی حاصل کر لیں گے۔ اور پھر پاکستان میں کوئی قتل و غارت گری نہیں ہو گی۔
 

میر انیس

لائبریرین
آپ نے بالکل بجا فرمایا دراصل عوام جو دیکھنا چاہتی ہے میڈیا وہی دکھاتا ہے ۔ ظاہر ہے جس پروگرام کو لوگ زیادہ پسند کرتے ہیں اشتہار بھی اسکو ہی زیادہ ملتے ہیں جس سے اس چینل کی آمدنی ہوتی ہے ، آپ کو یاد ہوگا کہ ایک زمانہ تھا کہ پاکستان میں انڈین فلمیں وی سی آر پر چلانے پر بھی پابندی تھی لیکن پھر بھی لوگ چھپ چھپ کر دیکھتے تھے۔ یہی حال اسٹار پلس سونی زی ٹیوی اور دوسرے ہندوستانی چینل کے ڈراموں اور دوسرے پروگراموں کا تھا ۔ جب پاکستانی میڈیا مشرف نے آزاد کیا تو انکے کرتا دھرتاؤں نے دیکھا کہ ہمارے ناظرین ہندوستانی پروگرام کیوں دیکھتے ہیں ان میں ایسی کیا چیز ہے جو ہمارے ناظرین کو پسند ہے بس انہوں نے وہی چلانا شروع کردیا ۔ اب ہمارے چینلز کے ڈراموں میں بھی وہی گندی زبان ساڑھیاں اور عرانیت دکھائی جارہی ہے یہاں تک کے بعض ڈرامے تو ایسے بنائے جارہے ہیں جو ہندو معاشرے کی عکاسی کر رہے ہیں ان میں کردار بھی ہندو ہیں وہی نام وہی پوجا پاٹ اسکے علاوہ ایسے ڈرامے بھی جن میں دکھایا تو ہمارا معاشرہ جارہا ہے پر کوئی نہ کوئی بات ایسی ضرور ہوتی ہے جن میں کبھی شاہ رخ خان یا سلمان خان کا ذکر ہوتا ہے یا انڈین گانا یا فلم کا ذکر ہوتا ہے ۔ وجہ صرف ایک ہی ہے۔ اور وہ ہے کہ ہمارے عوام ہی یہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ ایک بات مثال کے طور پر پیش کرتا ہوں کہ کافی عرصے پہلے آج ٹی وی پر ایک ٹاک شو آیا تھا جس میں کچھ اسلامی ذہن رکھنے والے طلبہ و طالبات تھیں اور انکی مخالفت میں کچھ روشن خیال طلبہ و طالبات تھے اسکے میزبان مشہور صحافی طلعت حسین تھے ۔ کافی بحث ہوئی اسکا احوال تو بتانا مشکل ہے بس ایک بات جو مجھ کو عجیب لگی وہ یہ تھی کہ ایک باحجاب طالبہ نے طلعت حسین سے سوال کیا کہ آپ کے آج ٹی وی ہی سے ایک پروگرام پیش کیا جاتا ہے "بیگم نوازش علی" وہ اتنا بیہودہ پروگرام ہے کہ ہم اپنے باپ بھائیوں کے ساتھ بیٹھ کر دیکھ نہیں سکتے آپ کو ایسے پروگرام چلانے کی کیا ضرورت ہے۔ تو طلعت حسین نے جواب دیا اور نہایت سخت لہجے میں دیا اور وہ یہ تھا کہ آپ کو پتہ ہے کہ ہمارے اس پروگرام پر ہم کو کتنے زیادہ اشتہار ملتے ہیں اور اشتہار اس پروگرام کو ہی ملتے ہیں جس کو عوام زیادہ شوق سے دیکھتے ہوں تو کیا ہم آپ چند لوگوں کی خواہش کی وجہ سے عوام کی اکثریت کی پسند کو فراموش کردیں۔
یعنی دین کے حساب سے ہماری ذمہ داری تو گئی بھاڑ میں ہم چند پیسوں کی خاطر یہ بھی نئی سوچتے کہ اس سے ہمارے ملک کی عوام کا اگر اخلاق برباد ہورہا ہے۔
تو ہونے دیا جائے نا کیا فرق پڑتا ہے ہمارا چینل تو عوام میں مقبول ہے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
ایک بات مثال کے طور پر پیش کرتا ہوں کہ کافی عرصے پہلے آج ٹی وی پر ایک ٹاک شو آیا تھا جس میں کچھ اسلامی ذہن رکھنے والے طلبہ و طالبات تھیں اور انکی مخالفت میں کچھ روشن خیال طلبہ و طالبات تھے اسکے میزبان مشہور صحافی طلعت حسین تھے ۔ کافی بحث ہوئی اسکا احوال تو بتانا مشکل ہے بس ایک بات جو مجھ کو عجیب لگی وہ یہ تھی کہ ایک باحجاب طالبہ نے طلعت حسین سے سوال کیا کہ آپ کے آج ٹی وی ہی سے ایک پروگرام پیش کیا جاتا ہے "بیگم نوازش علی" وہ اتنا بیہودہ پروگرام ہے کہ ہم اپنے باپ بھائیوں کے ساتھ بیٹھ کر دیکھ نہیں سکتے آپ کو ایسے پروگرام چلانے کی کیا ضرورت ہے۔ تو طلعت حسین نے جواب دیا اور نہایت سخت لہجے میں دیا اور وہ یہ تھا کہ آپ کو پتہ ہے کہ ہمارے اس پروگرام پر ہم کو کتنے زیادہ اشتہار ملتے ہیں اور اشتہار اس پروگرام کو ہی ملتے ہیں جس کو عوام زیادہ شوق سے دیکھتے ہوں تو کیا ہم آپ چند لوگوں کی خواہش کی وجہ سے عوام کی اکثریت کی پسند کو فراموش کردیں۔

انداز سے تو ایسا ہی لگتا ہے جیسے یہ بات اُنہوں نے طنزاً کہی ہو کیونکہ طلعت حسین اس قسم کے معاملات میں کافی حساس ہیں۔ عوام میں ایسے پروگرامز کی مقبولیت بہر کیف اس بات کی گواہ ہے کہ عوام میں سے بیشتر کا مزاج ایسا ہی ہے۔

اب آپ دیکھیے ایک ٹی وی چینل "الرحمٰن الرحیم"کے نام سے آتا ہے اس میں سارا دن اصلاحی پروگرام پیش کیے جاتے ہیں۔ اس میں آپ کو ایک اشتہار بھی نظر نہیں آئے گا۔ یقیناً بہت ہی کم لوگ یہ چینل دیکھتے ہیں۔

اب یا تو اصلاحی پروگرامز کو کمرشل ادارے پروموٹ کریں یا حکومت۔ لیکن دونوں کو ہی اس میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
 
Top