نوجوان نسل اور والدین و سرپرستوں کی ذمہ داری

عندلیب

محفلین
نوجوان نسل اور والدین و سرپرستوں کی ذمہ داری

السلام علیکم اردومحفل کے محترم ساتھیو !

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چودہ سو سال پہلے ہی بتا دیا تھا کہ سب سے بڑی کامیابی جو حاصل ہو سکتی ہے وہ آخرت کی کامیابی ہے۔ اور آخرت کی کامیابی کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں : اعمال میں سب سے زیادہ وزنی حسن اخلاق ہوں گے۔

گھٹتے ہوئے اخلاقی اقدار ، لادینی اور الحاد پر مبنی عقائد ، تشدد میں اضافہ ۔۔۔ ان تمام منفی رویوں سے زیادہ افسوس ناک اثر جو آج کی نوجوان نسل پر پڑ رہا ہے وہ شرم و حیا کے تعلق سے ہے ، بےحیائی اور بےراہ روی کے طریقوں میں فروغ سے متعلق ہے۔
ان کے ذمہ دار کون ہیں ؟ خود نوجوان نسل یا والدین یا سرپرست یا اساتذہ یا بگڑتا معاشرہ ؟


اکثر اوقات دیکھا جاتا ہے کہ والدین جن برائیوں کو معاشرے میں دیکھتے ہیں ، دوسرے بچوں کو جن برائیوں کا ارتکاب کرتے ہوئے معیوب سمجھتے ہیں ، اگر اُنہی برائیوں میں خود اپنے بچوں کو ملوث دیکھیں تو اس کا کچھ زیادہ سنجیدگی سے نوٹس نہیں لیا جاتا یا پھر ان کی اصلاح کی طرف توجہ نہیں کی جاتی ہے۔
والدین اپنے بچوں کی جانب مثبت طور پر راغب نہیں ہوتے بلکہ بعض اوقات ان کی غلط عادات کو بےجا لاڈ و پیار کے تحت رعایت تک دے دیتے ہیں۔
مثلاً اگر بچے کوئی غلط قسم کا میگزین یا ناول پڑھتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ : وہ ذرا یونہی وقت گزاری کے لئے پڑھ رہے ہیں!
غیر اخلاقی و غیر مہذب ٹی وی سیرئیل یا فلمیں دیکھتے نظر آئیں تو یوں پردہ پوشی کی جاتی ہے کہ : بھئی ، ہمارے بچے تو بس "صاف ستھری فلمیں" ہی دیکھتے ہیں۔ یا پھر یوں تاویل کی جاتی ہے کہ : محض ذرا دیر کے لئے ذرا سی تفریح کے لئے ہے۔

اگر بچے حجاب و حیا کی حدود کی پابندی نہیں کرتے یا پھر نامحرموں کے ساتھ میل جول ، ہنسی مذاق ، دوستی کرتے پھرتے ہیں تو صفائی دی جاتی ہے کہ : وہ تو صرف دوستی ہے۔ ہمارے بچوں کا دل تو صاف ہے۔ پردہ تو دراصل دل کا ہوتا ہے اور وہی اہم ہے۔

ہمیں اچھی طرح سمجھنا چاہئے کہ یہ ایسا نہیں ہے کہ ہم نے جو کچھ بھی پڑھا ، دیکھا یا سنا ، وہ صرف اُسی محدود وقت کے لئے تھا اور بس ختم۔ ورنہ تو ہم پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔
حالانکہ ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ : ہم جو کچھ پڑھتے ، دیکھتے یا سنتے ہیں وہ کہیں کھو نہیں جاتا بلکہ ہمارے ذہن کے لاشعور میں محفوظ ہو جاتا ہے۔ اور پھر بعد میں جو کچھ معلومات ہم اپنے ذہن سے اخذ کرتے ہیں وہ "محفوظ معلومات" کسی نہ کسی طرح سے اظہار کی راہیں تلاش کرتی ہیں۔
اور یوں ہماری گفتگو ، ہمارے جذبات ، احساسات ، اعمال و معاملات ، غرض ہماری مکمل شخصیت میں ہماری ذہنیت کا ظہور ہوتا ہے۔
اور یوں وہ محاورہ صادق آتا ہے کہ جو بویا جائے وہی کاٹا بھی جائے گا !!
 

arifkarim

معطل
درست فرمایا جناب، حدیث مبارکہ میں ہے کہ والدین سے انکی اولاد کے متعلق پوچھا جائے گا، کہ انہوں نے کس طرح انکی تربیت کی۔
 

طالوت

محفلین
یہ سب تو ہونا ہی تھا۔ آخری زمانہ جو ہے۔:(
پتا نہیں یہ افسوس ہے ، طنز یا بے بسی لیکن سب سے آسان کام ہے جلدی جان چھوٹ جاتی ہے ;)

اور شمشاد سارا الزام میڈیا اور سیل فون پر :eek: نہ نہ اصل وجہ تربیت کا فقدان اور لا پرواہی ہے جو دونوں طرف سے ہے
وسلام
 

arifkarim

معطل
پتا نہیں یہ افسوس ہے ، طنز یا بے بسی لیکن سب سے آسان کام ہے جلدی جان چھوٹ جاتی ہے ;)

اور شمشاد سارا الزام میڈیا اور سیل فون پر :eek: نہ نہ اصل وجہ تربیت کا فقدان اور لا پرواہی ہے جو دونوں طرف سے ہے
وسلام
آپ آجکل کے زمانے میں ڈنڈے کے زور پر بچوں کی تربیت نہیں کرسکتے!
 

طالوت

محفلین
بالکل ٹھیک کہا !
تربیت کیسے ہو میں ایک مثال دیتا ہوں ، میں نے گھر پر ابو کی ناراضگی مول لے کر کیبل لگوائی ، نیوز ، نیشنل جیوگرافک اور پیس ٹی وی کے لیئے ، اب یہ کار آمد چیزیں صرف میں ہی دیکھتا تھا ، باقی بہن بھائی بشمول امی کے اسٹار پلز کی جان نہیں چھوڑتے تھے ، جب کبھی میں ایا فورا چینل بدل دیا :) اب یہ کام تو ماوں کا ہے نا اگر وہی اس ڈگر پر چل پڑیں گی تو تربیت کیسے ہو گی ، ہر گھر کی یہی کہانی ہے لیکن جھوٹی انا ، شان یا شاید شرمندگی ہمیں سچ نہیں بولنے دیتی ، یا ہم اپنے مزے کی خاطر مصلحتوں کی چادر تانے رہتے ہیں ، مار کٹائی نہیں احساس پیدا کیجیئے اس عمر سے جب سے بچہ اس دنیا میں آ جاتا ہے اور پھر اس کے لیئے ہمارا اپنا رویہ ، گھر کا ماحول ، ملنے جلنے والے یا دوستوں کی دلچسپیاں کافی کچھ دیکھنا پڑتا ہے ، ورنہ بہانے ہزار ہیں ، لیکن پچھتاوے زندگی بھر کے :)
وسلام
 

عندلیب

محفلین
مار کٹائی نہیں احساس پیدا کیجیئے
لیکن میرا خیال ہے کہ صرف احساس پیدا کروانے سے بھی کام نہیں نکالا جا سکتا۔ ضروری عمل بھی کیا جانا چاہئے۔
ایک مثال میری طرف سے یوں سمجھئے۔ کچن میں پھل ترکاری کاٹنے کا چاقو رکھا ہوتا ہے۔ مائیں ہر چند کہ بچوں کو سمجھاتی ہیں (یا احساس دلاتی ہیں) کہ چاقو مت لینا ، ہاتھ کٹ جائے گا۔ مگر غور کریں کہ مائیں صرف سمجھانے پر ہی اکتفا نہیں کرتیں بلکہ چاقو کو محفوظ جگہ بھی اٹھا رکھتی ہیں۔
اگر ڈش کے چینلز کو صرف یہ کہہ کر جتایا جائے کہ اس سے دین و دنیا کی خرابی پیدا ہو جاتی ہے تو کیا صرف اتنا احساس دلانا کافی ہو جائے گا؟؟
جب مائیں چاقو کو محفوظ جگہ اٹھا رکھتی ہیں کہ اس سے بچوں کو خطرہ ہے تو ان ڈش چینلوں سے ناسمجھ اولاد کو محفوظ رکھنے کے بھی مناسب طریقے لازمی آزمائے جانے چاہئے۔
 

طالوت

محفلین
اب ماوں کی حالت میں آپ کو کیا بتاوں جن دنوں قوم کی ساری خواتین اسٹار پلز کے بخار میں مبتلا تھیں (اب پتا نہیں کیا صورتحال ہے نیز یہ شہری علاقوں کی خواتین کے بارے میں ہے)۔۔۔۔۔ ہمارے بازاروں میں کُم کُم اور پاروتی نامی ساڑھیاں تک بکنے لگیں اور ایک کلینک پر ایک ماں کو میں نے اپنے بیٹے کو سوجل پکارتے تک سنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وسلام
 

کاشف رفیق

محفلین
موضوع سے کچھ ہٹ کر

اس اتوار کو عید کی خریداری کیلئے بازار جانا ہوا۔ بازار میں بچیوں کے لباس دیکھ کر حیران و پریشان رہ گیا۔ ایسے واہیات قسم کے لباس مارکیٹ میں موجود ہیں جو کہ کیبل اور انڈین ڈراموں وغیرہ میں استعمال ہوتے ہیں۔ خریداری کیلئے آنے والے افراد کے ساتھ جو بچیاں تھیں بیشتر نے اسی قسم کے لباس زیب تن کئے ہوئے تھے۔ اگر آپ کوئی دھنگ کا لباس تلاش کرنا چاہیں تو آپ کو بہت مشکل پیش آئے گی۔

کچھ عرصہ قبل صرف میڈیا پر ہی اس قسم کے لباس دیکھے جاتے تھے لیکن آج ان بچیوں کے والدین جدید فیشن کی لپیٹ میں آکر یہ لباس استعمال کروارہے ہیں۔ کیا مستقبل میں ان بچیوں کو اس قسم کے لباس سے کوئی جھجک محسوس ہوگی؟ کیا ان بچیوں کے نزدیک حجاب کا تصور پایا جائے گا؟ پہلے میڈیا پر بے حیائی عام کرنا اور پھر دھیرے دھیرے بچوں و بچیوں کیلئے اس قسم کے لباس وافر مقدار میں مارکیٹ میں لانا، کیا یہ بے حیائی کو فروغ دینے کی کوشش نہیں ہے؟

میرے خیال میں سب سے پہلی ذمہ داری تو والدین پر ہی عائد ہوتی ہے خاص طور پر ماں پر۔ اس کے بعد اساتذہ کرام کی ذمہ داری بنتی ہے۔ سوسائٹی، تاجرحضرات اور حکومت کو بھی اسے کنٹرول کرنے کیلئے اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔
 
Top