فوزیہ افضل
محفلین
چراغ طور جلاؤ بڑا اندھیرا ہےجب خیال آیا مجھے تیرے رخ پر نور کا
پھر گیا نقشہ میری آنکھوں میں شمع طور کا
طور
ذرا نقاب اٹھاؤ بڑا اندھیرا ہے
وہ جن کے ہوتے ہیں خورشید آستینوں میں
انہیں کہیں سے بلاؤ بڑا اندھیرا ہے
ساغر صدیقی
چراغ
چراغ طور جلاؤ بڑا اندھیرا ہےجب خیال آیا مجھے تیرے رخ پر نور کا
پھر گیا نقشہ میری آنکھوں میں شمع طور کا
طور
آگے قدم بڑھائیں جنہیں سوجھتا نہیںچراغ طور جلاؤ بڑا اندھیرا ہے
ذرا نقاب اٹھاؤ بڑا اندھیرا ہے
وہ جن کے ہوتے ہیں خورشید آستینوں میں
انہیں کہیں سے بلاؤ بڑا اندھیرا ہے
ساغر صدیقی
چراغ
بازار
آگے قدم بڑھائیں جنہیں سوجھتا نہیں
روشن چراغ راہ کئے جا رہا ہوں میں
جگر مرادآبا
انہیں کے فیض سے بازار عقل روشن ہے
جو گاہ گاہ جنوں اختیار کرتے رہے
فیض احمد فیض
تیرے در کے فقیر ہیں ہم لوگصبح ہوتے ہی نکل آتے ہیں بازار میں لوگ
گٹھریاں سر پہ اٹھائے ہوئے ایمانوں کی
احمد ندیم قاسمی
لوگ