غزل (2024 - 02 -16)

مختصر غزل پیش ِخدمت ہے۔ اساتذہ کرام سے اصلاح کی درخواست ہے:
الف عین ، ظہیراحمدظہیر ، سید عاطف علی ، محمد احسن سمیع راحلؔ ، یاسر شاہ

چھوڑ کر تنہا کسی کو جو گیا ہے
بعد میں وہ بھی اکیلا ہو گیا ہے

زندگی جینے کا مجھ کو فن سکھا کر
خود منوں مٹی تلے وہ سو گیا ہے

اُس کو اپنی بھی خبر ہوتی نہیں اب
وہ تری یادوں میں ایسے کھو گیا ہے

مہرباں مجھ پر ہیں وہ حیران ہوں میں
آج کیسا معجزہ یہ ہو گیا ہے

رند نے منزل پہ جا کے دم ہے توڑا
داغ وہ ناکامیوں کے دھو گیا ہے
 
چھوڑ کر تنہا کسی کو جو گیا ہے
بعد میں وہ بھی اکیلا ہو گیا ہے
میرے خیال میں پہلا مصرع ماضی کے صیغے میں ہونا چاہیے اور دوسرا حال میں۔
آج وہ خود بھی ۔۔۔
زندگی جینے کا مجھ کو فن سکھا کر
خود منوں مٹی تلے وہ سو گیا ہے
زندگی جینے کا فن مجھ کو سکھا کر ۔۔۔

اُس کو اپنی بھی خبر ہوتی نہیں اب
وہ تری یادوں میں ایسے کھو گیا ہے
بے خبر رہتا ہے اپنے حال سے اب
وہ تری یادوں میں اتنا کھو گیا ہے

رند نے منزل پہ جا کے دم ہے توڑا
داغ وہ ناکامیوں کے دھو گیا ہے
یہاں رند کا محل میں سمجھ نہیں سکا ۔۔۔ اور جب منزل تک پہنچ ہی گیا تو پھر کیسی ناکامی؟
 
استادِمحترم جناب محمد احسن سمیع راحلؔ صاحب! کافی دنوں بعد آپ کی طرف سے نظرِ عنایت ہوئی اس کے لیے شکریہ۔
چھوڑ کر تنہا کسی کو جو گیا ہے
بعد میں وہ بھی اکیلا ہو گیا ہے

میرے خیال میں پہلا مصرع ماضی کے صیغے میں ہونا چاہیے اور دوسرا حال میں۔
آج وہ خود بھی ۔۔۔
آپ کی تجویز عمدہ ہے
چھوڑکر تنہا کسی کو جو گیا تھا
آج وہ خود بھی اکیلا ہوگیا ہے​
مگریہ خصوصیت کے زمرے میں آئے گا جبکہ میں عمومی بات کرنا چاہ رہا تھا
زندگی جینے کا مجھ کو فن سکھا کر
خود منوں مٹی تلے وہ سو گیا ہے

زندگی جینے کا فن مجھ کو سکھا کر ۔۔۔
درست ہے سر! اگر آپ کی طرف سے اصلاح میں تھوڑی سی تاخیر ہوجاتی تو میں تدوین کے ذریعے ایسے ہی کرنے والا تھا۔
اُس کو اپنی بھی خبر ہوتی نہیں اب
وہ تری یادوں میں ایسے کھو گیا ہے

بے خبر رہتا ہے اپنے حال سے اب
وہ تری یادوں میں اتنا کھو گیا ہے
ٹھیک ہے سر!
رند نے منزل پہ جا کے دم ہے توڑا
داغ وہ ناکامیوں کے دھو گیا ہے

یہاں رند کا محل میں سمجھ نہیں سکا ۔۔۔ اور جب منزل تک پہنچ ہی گیا تو پھر کیسی ناکامی؟
رند کو سست کے معنوں میں استعمال کرنے کی کوشش کی تھی۔ اپنی سستی کی وجہ سے وہ کبھی کامیاب نہیں ہوا۔ اور جب منزل پہ پہنچا تو دم توڑ دیا۔ لیکن ناکامیوں کے داغ دھو گیا۔
اگر یہ درست نہیں تو پھر اس کےمتبادل دوسرے شعر کی تصحیح کردیں سر!
درد مندی کے تقاضوں کو نبھاتے
درد میں خود مبتلا وہ ہو گیا ہے​
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
راحل بھائی اکثر اشعار پر بات کرچکے ۔ ان نکات پر توجہ دیجیے۔ ایک دو باتیں میں بھی عرض کرتا ہوں۔
۔ زندگی جینا ٹھیک ترکیب نہیں ہے ۔ جینا فعل لازم ہے ۔ زندگی کرنا بہتر ہے ۔ زندگی کرنا نسبتاً جدید محاورہ ہےاور اب اکثر نظم و نثر میں مل جاتا ہے۔ اس لیے چلے گا۔ زندگی جینے کو زندگی کرنے سے بدل دیجیے یا پھر یہ صورت دیکھیے: :::زندہ رہنے کا ہنر مجھ کو سکھا کر :::: جو بھی آپ کا مدعا بہتر ادا کرسکے۔

- تیسرے شعر میں"اُس" سے کون مراد ہے؟؟دوسرے مصرع میں خطاب تو محبوب سے ہے لیکن پہلے میں کس کی بات ہورہی ہے؟

-راحل بھائی کی تجویز کے بعد مطلع آپ نے توڑ دیا ۔ ضرورت نہیں تھی اس کی ۔ اس کا پہلا مصرع درست تھا۔ ایک عام بات یا حقیقت بتانے کے لیے حال کا صیغہ ہی استعمال کیاجاتا ہے ۔ جیسے: جو بھی پاکستان گیا ہے افسردہ ہوگیا ہے ، یہاں تو جو بھی پیچھے رہ گیا ہے مشکل میں پڑگیا ہے وغیرہ وغیرہ ۔ یہ صورت دیکھیے:
چھوڑ کر تنہا کسی کو جو گیا ہے:::: خود بھی آخر وہ اکیلا ہوگیا ہے ۔۔۔ یا۔۔۔۔ وہ اکیلا خود بھی آخر ہوگیا ہے ۔( اس دوسری صورت میں اکیلا ہونے پر زور اور تاکید ہے ) ۔ جو آپ کے مدعا سے قریب ہو اسے رکھ لیجیے ، اگر چاہیں تو۔

- رند کے بارے میں راحل بھائی بات کرچکے۔ لیکن آپ نے اس کی جو توجیہہ لکھی ہے وہ انتہائی خطرناک / تشویشناک/ دردناک/کرب ناک /وغیرہ وغیرہ ناک ہے ۔ آپ نے لکھا" رند کو سست کے معنوں میں استعمال کرنے کی کوشش کی تھی"
اس بات کا کیا مطلب؟؟؟ یعنی اگر میں کسی جملے میں جوتے کا لفظ استعمال کروں اور کہوں کہ اس کو میں نے بوتل کے معنوں میں استعمال کرنے کی کوشش کی تھی ۔ تو کیا یہ درست ہوگا؟! کسی لفظ کے معنی ہم خود سے کس طرح گھڑ سکتے ہیں؟
دوسری بات یہ کہ لفظوں کے معنی اور مفہوم میں فرق کرنا بہت ضروری ہے یعنی annotation اورconnotation کا فرق اچھی طرح جاننا اور سمجھنا کسی بھی شاعر بلکہ کسی بھی لکھاری کے لیے بہت ضروری ہے۔ معنی تو وہ ہیں جو لغت میں دیئے ہوتے ہیں ۔( اور ایک لفظ کے درجنوں معنی ہوسکتے ہیں جن میں سے کچھ متروک اور کچھ انتہائی قلیل الاستعمال بھی ہوسکتے ہیں۔ ) لیکن مفہوم وہ تصویر ہے جو اس لفظ سے سامع یا قاری کے ذہن میں آتی ہے۔ مثلاً انتقال کے معنی موت بھی ہیں اور کسی چیز کا ایک جگہ سےدوسری جگہ منتقل ہوجانا بھی۔ اگر آپ کہیں کہ ظہیر صاحب کا انتقال ہوگیا تو کوئی بھی یہ نہیں پوچھے گا کہ کہاں سے کہاں ۔ بلکہ یہ پوچھا جائے گا کہ کب اور کیسے۔ یعنی انتقا ل کے لفظ سےسامع یا قاری کے ذہن میں تصور صرف موت کا ہی آتا ہے۔ اچھی شاعری میں لفظوں کے مفہوم سے کام لیا جاتا ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
مہرباں مجھ پر ہیں وہ حیران ہوں میں
آج کیسا معجزہ یہ ہو گیا ہے
ایک اس شعر پر بات نہیں ہوئی
دوسرے مصرعے میں جو تحیر کی کیفیت ہے، وہ پہلے مصرع سے ادا نہیں ہو رہی ہے
میں تو حیراں ہوں، وہ مجھ پر مہرباں ہیں
یا اس قسم کا کوئی مصرع جس میں تحیر واضح ہو "تو" کے استعمال کے ساتھ
 
آج میرے لیے انتہائی مسرت کا دن ہے کہ تین جَیّد اساتذہ کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا ہوں۔ آپ سب کی تجاویز اور اصلاح سر آنکھوں پر۔ محترم ظہیراحمدظہیر صاحب کا خصوصی شکریہ کہ انہوں نے بڑی وضاحت سے بات کی۔
راحل بھائی اکثر اشعار پر بات کرچکے ۔ ان نکات پر توجہ دیجیے۔ ایک دو باتیں میں بھی عرض کرتا ہوں۔
۔ زندگی جینا ٹھیک ترکیب نہیں ہے ۔ جینا فعل لازم ہے ۔ زندگی کرنا بہتر ہے ۔ زندگی کرنا نسبتاً جدید محاورہ ہےاور اب اکثر نظم و نثر میں مل جاتا ہے۔ اس لیے چلے گا۔ زندگی جینے کو زندگی کرنے سے بدل دیجیے یا پھر یہ صورت دیکھیے: :::زندہ رہنے کا ہنر مجھ کو سکھا کر :::: جو بھی آپ کا مدعا بہتر ادا کرسکے۔
یہ تجویز ہی بہتر ہے سر!
زندہ رہنے کا ہنر مجھ کو سکھا کر
خود منوں مٹی تلے وہ سو گیا ہے​
- تیسرے شعر میں"اُس" سے کون مراد ہے؟؟دوسرے مصرع میں خطاب تو محبوب سے ہے لیکن پہلے میں کس کی بات ہورہی ہے؟​
جناب راحل صاحب کے تجویز کردہ متبادل شعر کے بعد شاید یہ مسئلہ حل ہوگیا ہوگا
بے خبر رہتا ہے اپنے حال سے اب
وہ تری یادوں میں ایسے کھو گیا ہے​
-راحل بھائی کی تجویز کے بعد مطلع آپ نے توڑ دیا ۔ ضرورت نہیں تھی اس کی ۔ اس کا پہلا مصرع درست تھا۔ ایک عام بات یا حقیقت بتانے کے لیے حال کا صیغہ ہی استعمال کیاجاتا ہے ۔ جیسے: جو بھی پاکستان گیا ہے افسردہ ہوگیا ہے ، یہاں تو جو بھی پیچھے رہ گیا ہے مشکل میں پڑگیا ہے وغیرہ وغیرہ ۔ یہ صورت دیکھیے:
چھوڑ کر تنہا کسی کو جو گیا ہے:::: خود بھی آخر وہ اکیلا ہوگیا ہے ۔۔۔ یا۔۔۔۔ وہ اکیلا خود بھی آخر ہوگیا ہے ۔( اس دوسری صورت میں اکیلا ہونے پر زور اور تاکید ہے ) ۔ جو آپ کے مدعا سے قریب ہو اسے رکھ لیجیے ، اگر چاہیں تو۔
سر! اوپر جناب راحل صاحب کے جواب میں یہی بات میں نے بھی لکھی ہے اس پر آپ کی گواہی نےمیرا حوصلہ بڑھادیا۔
- رند کے بارے میں راحل بھائی بات کرچکے۔ لیکن آپ نے اس کی جو توجیہہ لکھی ہے وہ انتہائی خطرناک / تشویشناک/ دردناک/کرب ناک /وغیرہ وغیرہ ناک ہے ۔ آپ نے لکھا" رند کو سست کے معنوں میں استعمال کرنے کی کوشش کی تھی"
اس بات کا کیا مطلب؟؟؟ یعنی اگر میں کسی جملے میں جوتے کا لفظ استعمال کروں اور کہوں کہ اس کو میں نے بوتل کے معنوں میں استعمال کرنے کی کوشش کی تھی ۔ تو کیا یہ درست ہوگا؟! کسی لفظ کے معنی ہم خود سے کس طرح گھڑ سکتے ہیں؟
دوسری بات یہ کہ لفظوں کے معنی اور مفہوم میں فرق کرنا بہت ضروری ہے یعنی annotation اورconnotation کا فرق اچھی طرح جاننا اور سمجھنا کسی بھی شاعر بلکہ کسی بھی لکھاری کے لیے بہت ضروری ہے۔ معنی تو وہ ہیں جو لغت میں دیئے ہوتے ہیں ۔( اور ایک لفظ کے درجنوں معنی ہوسکتے ہیں جن میں سے کچھ متروک اور کچھ انتہائی قلیل الاستعمال بھی ہوسکتے ہیں۔ ) لیکن مفہوم وہ تصویر ہے جو اس لفظ سے سامع یا قاری کے ذہن میں آتی ہے۔ مثلاً انتقال کے معنی موت بھی ہیں اور کسی چیز کا ایک جگہ سےدوسری جگہ منتقل ہوجانا بھی۔ اگر آپ کہیں کہ ظہیر صاحب کا انتقال ہوگیا تو کوئی بھی یہ نہیں پوچھے گا کہ کہاں سے کہاں ۔ بلکہ یہ پوچھا جائے گا کہ کب اور کیسے۔ یعنی انتقا ل کے لفظ سےسامع یا قاری کے ذہن میں تصور صرف موت کا ہی آتا ہے۔ اچھی شاعری میں لفظوں کے مفہوم سے کام لیا جاتا ہے۔
سر! آپ کی بات بالکل درست ہے اور آئندہ میں مزید خیال رکھوں گا۔ رند کا معنی سست لکھنا اس لیے سرزد ہوگیا کہ درج ذیل آن لائن لغت نے یہ راہ دکھائی:
ایک شعر اور تھا اگر اس پر بھی توجہ فرمادیں تو شکر گذار ہوں گا۔
درد مندی کے تقاضوں کو نبھاتے
درد میں خود مبتلا وہ ہو گیا ہے
 
ایک اس شعر پر بات نہیں ہوئی
دوسرے مصرعے میں جو تحیر کی کیفیت ہے، وہ پہلے مصرع سے ادا نہیں ہو رہی ہے
میں تو حیراں ہوں، وہ مجھ پر مہرباں ہیں
یا اس قسم کا کوئی مصرع جس میں تحیر واضح ہو "تو" کے استعمال کے ساتھ
سر الف عین صاحب! آپ کا تجویز کردہ مصرعہ ہی بہتر ہے۔
بہت شکریہ سر!
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
سر! آپ کی بات بالکل درست ہے اور آئندہ میں مزید خیال رکھوں گا۔ رند کا معنی سست لکھنا اس لیے سرزد ہوگیا کہ درج ذیل آن لائن لغت نے یہ راہ دکھائی:
آپ کا یہ مراسلہ دیکھ کر بے اختیار سر پیٹنے کو جی چاہا۔
بھائی ، پہلی بات تو یہ کہ لغت اورتھیسارس کا فرق جانیے۔ لغت میں لفظ کے معنی اور دیگر متعلقہ معلومات ہوتی ہیں جبکہ قاموس یا تھیسارس میں لفظ کے صرف متبادلات ( یا ہم معنی) الفاظ درج ہوتے ہیں ۔ اردو کے کئی معتبر لغات تو موجود ہیں لیکن کوئی اچھاتھیسارس ابھی تک دستیاب نہیں ہے۔ احسان دانش نے اردو مترادفات کے نام سے ایک کتاب تالیف کی تھی لیکن وہ بہت محدود ہے اور اس میں بھی مسائل ہیں۔
لغت لکھاری کے اوزاروں میں سے ایک اوزار ہے ۔ اگر غلط اوزار استعمال کریں گے تو غلط نتیجہ نکلے گا۔ اگر صحیح اوزار بھی غلط طریقے سے استعمال کریں گے تو نتیجہ پھر غلط نکلے گا۔ آپ نے جو آنلائن تھیسارس کا ربط دیا ہے اسے میں نے دیکھا ۔ کسی بھی مآخذ کو استعمال کرنے سے پہلے اس کے طریقۂ استعمال کو سمجھنا ضروری ہے۔ اس تھیسارس کو تالیف کرنے والے صاحبان نے ایک حرکت اس میں یہ کی ہے کہ کسی بھی لفظ کے متبادلات نمبر وارلکھنے کے بعد ان میں سے ہر متبادل لفظ کے سامنے اس لفظ کے متبادلات بھی لکھ دیئے ہیں ۔ چنانچہ انہوں نے رند کے تین متبادلات الفتا ، الفتہ اور اوباش لکھے ہیں ۔ پھر اوباش کے آگے اس کے متبادلات لکھ دیئے ہیں( جس میں آپ نے سست کا لفظ دیکھا اور اسے رند کا متبادل سمجھ لیا۔ )
"رند
متعلقہ مترادفات
معنی میں قریب الفاظ نیچے جلی حروف میں درج ہیں. ان کے مترادفات میں تلاش کردہ لفظ کے متعلقہ مترادفات مل سکتے ہیں۔
1.اَلفتا: اوباش
2.اَلفتہ: اوباش
3. اوباش: آوارہ ۔ آوارہ مزاج ۔اجامر۔ بد چلن۔ بد قماش۔بد کردار،۔بد معاش۔ بد وضع۔ بدکار۔پچمیل ۔ترخوان ۔تماش بین ۔ جلف۔ جمری۔ رندِ بے باک ۔ رندِ خام۔ رندِ غلط مشرب۔ زناکار۔ سایہ پرست ۔سبک روح۔ سست۔ مہار۔ شُہدا ۔عیاّش۔ غنڈا ۔کمینہ۔لُچّا ۔لوالو۔نخیز ۔نہنگ۔ ہادوری "


کیامندرجہ بالا تمام الفاظ رند کے مترادفات ہیں؟! کیا ان میں سے جو لفظ آپ چاہیں رند کی جگہ رکھ سکتے ہیں؟!
یہ تھیسارس بالکل بھی معتبر نہیں ہے ۔ اسے مت استعمال کیجیے ۔ اب آپ کا ہوم ورک یہ ہے کہ آپ بتائیے کہ آپ کون سی لغات استعمال کرتے ہیں اور یہ بھی بتائیے کہ مذکورہ بالاتھیسارس استعمال کرنے کا خیال آپ کو کیسے آیا۔
تیسری بات یہ کہ ہمیشہ کے لیے امریکی صدر ابراہیم لنکن کے اس قول کو گرہ سے باندھ لیجیے کہ: انٹرنیٹ پر لکھی ہوئی ہر بات معتبر نہیں ہوتی۔
 
آپ کا یہ مراسلہ دیکھ کر بے اختیار سر پیٹنے کو جی چاہا۔
بھائی ، پہلی بات تو یہ کہ لغت اورتھیسارس کا فرق جانیے۔ لغت میں لفظ کے معنی اور دیگر متعلقہ معلومات ہوتی ہیں جبکہ قاموس یا تھیسارس میں لفظ کے صرف متبادلات ( یا ہم معنی) الفاظ درج ہوتے ہیں ۔ اردو کے کئی معتبر لغات تو موجود ہیں لیکن کوئی اچھاتھیسارس ابھی تک دستیاب نہیں ہے۔ احسان دانش نے اردو مترادفات کے نام سے ایک کتاب تالیف کی تھی لیکن وہ بہت محدود ہے اور اس میں بھی مسائل ہیں۔
لغت لکھاری کے اوزاروں میں سے ایک اوزار ہے ۔ اگر غلط اوزار استعمال کریں گے تو غلط نتیجہ نکلے گا۔ اگر صحیح اوزار بھی غلط طریقے سے استعمال کریں گے تو نتیجہ پھر غلط نکلے گا۔ آپ نے جو آنلائن تھیسارس کا ربط دیا ہے اسے میں نے دیکھا ۔ کسی بھی مآخذ کو استعمال کرنے سے پہلے اس کے طریقۂ استعمال کو سمجھنا ضروری ہے۔ اس تھیسارس کو تالیف کرنے والے صاحبان نے ایک حرکت اس میں یہ کی ہے کہ کسی بھی لفظ کے متبادلات نمبر وارلکھنے کے بعد ان میں سے ہر متبادل لفظ کے سامنے اس لفظ کے متبادلات بھی لکھ دیئے ہیں ۔ چنانچہ انہوں نے رند کے تین متبادلات الفتا ، الفتہ اور اوباش لکھے ہیں ۔ پھر اوباش کے آگے اس کے متبادلات لکھ دیئے ہیں( جس میں آپ نے سست کا لفظ دیکھا اور اسے رند کا متبادل سمجھ لیا۔ )
"رند
متعلقہ مترادفات
معنی میں قریب الفاظ نیچے جلی حروف میں درج ہیں. ان کے مترادفات میں تلاش کردہ لفظ کے متعلقہ مترادفات مل سکتے ہیں۔
1.اَلفتا: اوباش
2.اَلفتہ: اوباش
3. اوباش: آوارہ ۔ آوارہ مزاج ۔اجامر۔ بد چلن۔ بد قماش۔بد کردار،۔بد معاش۔ بد وضع۔ بدکار۔پچمیل ۔ترخوان ۔تماش بین ۔ جلف۔ جمری۔ رندِ بے باک ۔ رندِ خام۔ رندِ غلط مشرب۔ زناکار۔ سایہ پرست ۔سبک روح۔ سست۔ مہار۔ شُہدا ۔عیاّش۔ غنڈا ۔کمینہ۔لُچّا ۔لوالو۔نخیز ۔نہنگ۔ ہادوری "


کیامندرجہ بالا تمام الفاظ رند کے مترادفات ہیں؟! کیا ان میں سے جو لفظ آپ چاہیں رند کی جگہ رکھ سکتے ہیں؟!
یہ تھیسارس بالکل بھی معتبر نہیں ہے ۔ اسے مت استعمال کیجیے ۔ اب آپ کا ہوم ورک یہ ہے کہ آپ بتائیے کہ آپ کون سی لغات استعمال کرتے ہیں اور یہ بھی بتائیے کہ مذکورہ بالاتھیسارس استعمال کرنے کا خیال آپ کو کیسے آیا۔
تیسری بات یہ کہ ہمیشہ کے لیے امریکی صدر ابراہیم لنکن کے اس قول کو گرہ سے باندھ لیجیے کہ: انٹرنیٹ پر لکھی ہوئی ہر بات معتبر نہیں ہوتی۔
استادِمحترم ظہیراحمدظہیر صاحب!
آپ کے فرامین بجا۔تھیسارس مترادف الفاظ کی لغت ہی ہوتی ہے۔اور مترادف کا مطلب ہم معنی ہی ہوتا ہے۔البتہ یہ تھیسارس معتبر نہیں ہے آپ فرمارہے تو درست ہوگا۔
ایک اور آن لائن لغت میں بھی رند کے معنی اسی طرح کے درج ہیں۔ میں اس لغت کے علاوہ فرہنگِ آصفیہ بھی استعمال کرتا ہوں۔ اس میں بھی اسی آن لائن لغت جیسے معانی لکھے ہیں:
مذہب کا پابند نہ ہونا،منکرِشریعت،آزاد، ملحد، لچا، لفنگا، کافر، بے ایمان، لامذہب، بدمذہب، متوالا (آن لائن لغت میں صوفی ، پارسا بھی لکھے ہیں)، نشہ باز،شرابی، چرسی بھنگی
شرابی، بھنگی، چرسی کی ایک صفت سست ہونا بھی ہوتی ہے جب وہ نشے میں ہو۔
جیسے ایک پہلوان (روائتی) کی ایک صفت موٹا ہونا بھی ہوتی ہے۔ موٹے کوپہلوان کی اسی صفت کی وجہ سے پہلوان بھی کہ دیتے ہیں۔ اور پہلوان کو موٹا بھی کہ دیتے ہیں۔ تو کیا اس طرح کا استعمال جائز نہیں ہے؟
میں نے بھی رند کی ایک صفت جو سست ہونا ہے کی وجہ سے رند استعمال کیا تھا۔
نوٹ:- یہ اپنے حق میں دلائل نہیں- بلکہ استاد کی حیثیت سے آپ کا کہا مان کر اس شعر کو تبدیل کرنے کی کوشش کی تھی۔ اب صرف علم میں اضافےکے لیے آپ مزید راہنمائی درکار ہے۔
 
درد مندی کے تقاضوں کو نبھاتے
درد میں خود مبتلا وہ ہو گیا ہے

پہلا مصرع اچھا نہیں، درد لفظ کو دو بار استعمال اور صرف نبھاتے (ہوئے) کی وجہ سے
محترم استاد الف عین صاحب!
دل جلوں کا مضحکہ کرتے ہوئے وہ
دردِ دل میں مبتلا خود ہو گیا ہے
 
مضحکہ کرنا بھی محاورہ نہیں، مضحکہ اڑایا جاتا ہے چھیڑ کی جاتی ہے
سر الف عین صاحب ! عام استعمال میں جو محاورہ ہے وہ یہی ہے۔ مضحکہ اڑانا ۔
لیکن انہی معنوں میں( ریختہ لغت آن لائن میں) یہ محاورہ بھی ہے۔ مضحکہ کرنا
یہی محاورہ فرہنگِ آصفیہ میں بھی موجود ہے۔
 

الف عین

لائبریرین

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
استادِمحترم @ظہیراحمدظہیر صاحب!
آپ کے فرامین بجا۔تھیسارس مترادف الفاظ کی لغت ہی ہوتی ہے۔اور مترادف کا مطلب ہم معنی ہی ہوتا ہے۔البتہ یہ تھیسارس معتبر نہیں ہے آپ فرمارہے تو درست ہوگا۔
ایک اور آن لائن لغت میں بھی رند کے معنی اسی طرح کے درج ہیں۔ میں اس لغت کے علاوہ فرہنگِ آصفیہ بھی استعمال کرتا ہوں۔ اس میں بھی اسی آن لائن لغت جیسے معانی لکھے ہیں:
مذہب کا پابند نہ ہونا،منکرِشریعت،آزاد، ملحد، لچا، لفنگا، کافر، بے ایمان، لامذہب، بدمذہب، متوالا (آن لائن لغت میں صوفی ، پارسا بھی لکھے ہیں)، نشہ باز،شرابی، چرسی بھنگی
نوٹ:- یہ اپنے حق میں دلائل نہیں- بلکہ استاد کی حیثیت سے آپ کا کہا مان کر اس شعر کو تبدیل کرنے کی کوشش کی تھی۔ اب صرف علم میں اضافےکے لیے آپ مزید راہنمائی درکار ہے۔
بھائی صاحب ، اس بارے میں راہنمائی تو میں اپنے پہلے ہی مراسلے میں کرچکا ۔ آپ نے غور نہیں کیا ۔ کسی رہنمانکتے کو پڑھ کر اس پر غور و فکر کرنا اور اس سے نتائج اخذ ضروری ہوتا ہے ۔ صرف سرسری پڑھ کر گزرجانے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔۔ میں نے لفظ انتقال کی مثال دے کر annotation اورconnotation یعنی معنی اور مفہوم کا فرق اچھی طرح واضح کردیا تھا۔خیر ، اب کچھ مزید وضاحت سے لکھ دیتا ہوں۔
1۔ زبان لغت سے نہیں سیکھی جاتی
2۔ زبان تو اہلِ زبان اور زبان دانوں کی تقریر و تحریر سے سیکھی جاتی ہے۔
3۔ لغت کیا ہے؟ لغت کسی بھی زبان میں پائے جانے والے تمام الفاظ کا تحریری ریکارڈ ہوتی ہے۔ کوئی لفظ خواہ وہ مستعمل ہو یا متروک ، معروف ہو یا غریب ، کثیرالاستعمال ہو یا شاذ ،عامی ہو ادبی وہ لغت میں درج ہوتا ہے۔ لغت میں سڑی سڑی گالیاں بھی درج ہوتی ہیں۔
4۔ لغت آپ کو یہ نہیں بتاتی کہ کس لفظ کو کن معنوں میں کس جگہ استعمال کرنا ہے ۔ کسی بھی لفظ کا محلِ استعمال ( استعمال کا طریقہ) اہلِ زبان یا زبان دانوں سے معلوم ہوتا ہے۔ زبان سیکھنے کے لیے یا تو ان لوگوں میں اٹھا بیٹھاجائے ، ان سے گفتگو کی جائے یا پھر ان کی تحاریر کو بغور اور کثرت سےپڑھا جائے ۔ اس کے علاوہ زبان سیکھنے کا کوئی اور طریقہ نہیں ۔
5۔ اگر کوئی شخص انگریزی کی لغت سے تمام الفاظ اور ان کے معانی یاد کرلے تو کیا وہ انگریزی میں ادب تخلیق کرنے پر قادر ہوجائے گا؟ جی نہیں ۔ جب تک وہ یہ نہیں سیکھے گا کہ کون سا لفظ کس موقع پر کس طرح استعمال کیا جاتا ہے وہ زبان کو کماحقہ نہیں برت سکے گا ۔ اسی بات کو فصاحت اور بلاغت کہتے ہیں ۔
6۔ اردو زبان اپنی تشکیل اور ساخت کے اعتبار سے بہت منفرد زبان ہے ۔ یہ زبان ہندی ، فارسی ، عربی ، ترکی اور انگریزی وغیرہ کے باہمی اشتراک سے بنی ہے ۔ اور یہ اُس زمانے میں کئی علاقوں میں پروان چڑھی کہ جب نہ تو کتابیں اور رسائل چھپتے تھے اور نہ ہی مواصلات کے دیگر ذرائع وجود رکھتے تھے۔چنانچہ ایک ہی لفظ دبستانِ دہلی میں اور طرح سے برتا جاتا تھا اور دبستانِ لکھنؤ میں اور طرح سے۔ حیدرآباد دکن میں اس کا محلِ استعمال کچھ اور ہوسکتا تھا ۔ وغیرہ وغیرہ۔ نتیجتاً اردو کے بہت سارے الفاظ نے اپنی ابتدا سے لے کر آج تک تین چار صدیوں میں ارتقا کا ایک سست رفتار سفر طے کیا ہے۔ اول اول بہت سارے الفاظ کو فارسی اور عربی سے ان کے معانی اور مفہوم اور املا سمیت جوں کا توں لے لیا گیا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان کا استعمال بتدریج تبدیل ہوتا گیا ۔ چنانچہ ان کے معنی اور مفہوم بھی تبدیل ہوتے گئے۔
7۔ اس لیے لغت میں ہر لفظ کے تحت وہ تمام معنی اول سے آخر تک درج ہوتے ہیں کہ جو کبھی بھی کسی زمانے اور کسی بھی علاقے میں اس لفظ سے منسلک رہے ہوں۔ خواہ وہ معانی اس لفظ سے ایک لمبے عرصے تک منسلک رہے ہوں یا کسی مختصر عہد میں محض چند لکھاریوں نے انہیں استعمال کیا ہو۔ مثلاً غریب کا لفظ کسی زمانے میں عجیب اور اجنبی کے معنوں میں استعمال ہوتا تھا لیکن اب غریب کے معنی مفلس کے ہوتے ہیں۔( انتقال کے لفظ کی مثال اپنے پچھلے مراسلے میں وضاحت سے لکھ چکا ہوں۔) حاصلِ کلام یہ کہ لغت میں ایک لفظ کے متعدد معانی درج ہوسکتے ہیں لیکن لکھاری کا کام یہ دیکھنا ہے کہ اس لفظ کے معروف معنی کیا ہیں ، اس لفظ سےسننے یا پڑھنے والے کے ذہن میں کیا مفہوم پیدا ہوتا ہے۔ اسی لیے متروکات کو اب استعمال نہیں کیا جاتا کیونکہ عدم استعمال کے باعث اب ان کے معنی کسی کو (یعنی عام قارئین کو) معلوم نہیں ۔ متروکات کو استعمال کرنا ایسا ہی ہے جیسے اردو جملے میں کسی جرمن لفظ کو شامل کرنا۔
8۔ کوئی بھی دو الفاظ ہم معنی تو ہو سکتے ہیں لیکن ضروری نہیں کہ ہم مفہوم بھی ہوں۔ لغت نگار کی مجبوری یہ ہے کہ کسی بھی لفظ کے معنی درج کرنے کے لیے اسے کسی دوسرے لفظ یا لفظوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ چنانچہ ہم ان ا لفاظ کو ہم معانی اور مترادف سمجھتے اور کہہ دیتے ہیں ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اکثر و بیشتر ان الفاظ کا درست محلِ استعمال ایک دوسرے سے بہت مختلف ہوتا ہے یعنی یہ الفاظ ہم مفہوم نہیں ہوتے۔ مثال کے طور پر لفظ "سہارا "کو لے لیجیے۔ لغت میں اس کے چار معانی ہیں: (1)مدد، بھروسا ، وسیلہ (2) امید ، توقع(3) توانائی ، قوت (4)ٹیک ، اڑواڑ ۔یعنی سہارا کا لفظ ان چاروں مفاہیم میں استعمال کیا جاتاہے لیکن کیا یہ تمام الفاظ کسی بھی جملے میں ایک دوسرے کی جگہ رکھے جاسکتے ہیں؟ کیا یہ ایک دوسرے کے متبادلات یا مترادفات ہیں؟ ظاہر ہے کہ ان سوالات کا جواب نفی میں ہوگا۔ سہار ا کا لفظ کس مفہوم میں کیسے اور کب استعمال کیا جاتا ہے یہ بات لغت نہیں بتائے گی ۔ اہلِ زبان سے سیکھنا پڑے گا۔اس لفظ کا استعمال ان چاروں مفاہیم میں بالترتیب مندرجہ ذیل مثالوں سے سمجھیے:
(1) حالات لاکھ خراب سہی ، مجھے اللہ کا سہارا ہے۔
(2) جب تک اماں زندہ تھیں مجھے گھر والوں کا سہارا تھا لیکن اب ان کے جانے کے بعد تو اندھیرا ہی سمجھیے۔
(3) اس طویل سفر میں فرزانہ کی محبت سہارا نہ دیتی تو میں کب کا تھکن سے چور ہو کر گرپڑتا۔
(4) دوپہر کو نین بھائی حسبِ معمول دیوار کا سہارا لیے بیٹھے تھے۔ مجھے یقین ہے کہ اب بھی وہیں بیٹھے ہوں گے۔

9۔ ہر زبان میں کچھ الفاظ تقریری ہوتے ہیں ، کچھ تحریری اور کچھ تقریرو تحریر دونوں میں مستعمل ہوتے ہیں ۔ الفاظ کی ان حیثیتوں میں امتیاز کرنا لکھاری کے لیے انتہائی ضروری ہے ۔ رند کا لفظ اردو میں صرف تحریر میں مستعمل ہے اور وہ بھی بالخصوص شاعری میں ۔ یہ لفظ تقریری نہیں ہے یعنی آپ کو گفتگو میں کبھی سنائی نہیں دے گا۔ اس طرح کے تحریری الفاظ ایک خاص مفہوم میں اور خاص سیاق و سباق میں ہی استعمال ہوتے ہیں یعنی ایک خاص معنوں میں مسلسل استعمال کی وجہ سے یہ الفاظ گویا اصطلاح کا درجہ اختیار کرجاتے ہیں۔ رند بھی اسی طرح کا ایک لفظ ہے ۔اردو شاعری میں اس لفظ کے ایک خاص معنی متعین ہوچکے ہیں یعنی پینے پلانے والا آزاد منش ، آزاد خیال انسان۔اردو شاعری کا ہر قاری اس لفظ کے یہی معنی سمجھتا ہے ۔ سو اس لفظ کو کسی دوسرے معنی میں استعمال نہیں کیا جاسکتا ۔ مختصراً یہ کہ رند کے معنی بھنگی، چرسی ،منکرِشریعت،، ملحد، لچا، لفنگا وغیرہ اب معروف نہیں ہیں ۔ دو تین سو سال پہلے کسی نے ان معنوں میں کہیں استعمال کیا ہو تو اب اس کا اعتبار نہیں ۔ اب ان قدیم معنوں کی صرف تاریخی حیثیت ہے ، عملی حیثیت کچھ بھی نہیں ۔ اب یہ معانی اس لفظ پر قابلِ اطلاق نہیں۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
سر الف عین صاحب ! عام استعمال میں جو محاورہ ہے وہ یہی ہے۔ مضحکہ اڑانا ۔
لیکن انہی معنوں میں( ریختہ لغت آن لائن میں) یہ محاورہ بھی ہے۔ مضحکہ کرنا
یہی محاورہ فرہنگِ آصفیہ میں بھی موجود ہے۔
اس کے تفصیلی جواب کے لیے میرا اوپر والا مراسلہ دیکھیے۔ جیسا کہ استادِ محترم نے فرمایا مضحکہ کرنا معروف نہیں ہے ، مضحکہ اڑانا معروف ہے۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
شرابی، بھنگی، چرسی کی ایک صفت سست ہونا بھی ہوتی ہے جب وہ نشے میں ہو۔
جیسے ایک پہلوان (روائتی) کی ایک صفت موٹا ہونا بھی ہوتی ہے۔ موٹے کوپہلوان کی اسی صفت کی وجہ سے پہلوان بھی کہ دیتے ہیں۔ اور پہلوان کو موٹا بھی کہ دیتے ہیں۔ تو کیا اس طرح کا استعمال جائز نہیں ہے؟
میں نے بھی رند کی ایک صفت جو سست ہونا ہے کی وجہ سے رند استعمال کیا تھا۔
لاحول ولا قوۃ الا باللہ!
موٹے اور پہلوان کی جو مثال آپ نے دی ہے اس کا لفظ کے معانی سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ یہ تو اہلِ پنجاب کا ایک اسلوب ہے ۔ پنجاب سے باہر شاید ہی کہیں موٹے آدمی کو پہلوان کہا جاتا ہو۔
بعض لوگوں کو ان کی حیثیت یا جسامت یا شباہت وغیرہ کی بنا پر بعض القاب سے پکارا جانا ایک عام معاشرتی رویہ ہے ۔ کسی شے کو اس کی غالب صفت کی بنا پر اس صفت سے پکارنا مجاز یا تشبیہہ کی ایک مثال ہے ۔ جیسے کسی نہایت پتلے دبلےآدمی کو یہ کہنا کہ وہ تو سوکھ کر کانٹا ہوگیا ہے ۔ یا کسی حسین دوشیزہ کو پری کہہ دینا ، وغیرہ۔ لیکن اس ایک مخصوص لسانی رویے کو ہر کسی لفظ اور موقع پر قطعی استعمال نہیں کیا جاسکتا ۔
بات پھر گھوم پھر کر وہیں آجاتی ہے کہ زبان کا استعمال اہلِ زبان اور زبان دانوں سے سیکھا جاتا ہے ۔ الفاظ کو برتنے میں ان کی نقالی کی جاتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ آپ کو ادبِ عالیہ کے مطالعے کی ضرورت ہے ۔ کسی اور جگہ میں نے لکھا تھا کہ آپ جب تک نثر کے مستند اور معتبر مصنفین کی دو تین سو معیاری کتب نہ پڑھ لیں تب تک اچھا لکھنے کے قابل نہیں ہوسکتے۔
 
Top