کھویا ہے جسے میں نے نایاب گہر تھا وہ

سر الف عین
یاسر شاہ
محمّد احسن سمیع :راحل:
اور دیگر احباب سے اصلاح کی درخواست ہے

ہر شخص کا محفل میں منظورِ نظر تھا وہ
مائل بہ کرم مجھ پر کچھ کچھ تو مگر تھا وہ

بن اس کے لگے مجھکو ہر شب ہے اماوس کی
قسمت کے اندھیروں میں مانندِ قمر تھا وہ

ٹوٹی ہیں امیدیں بھی کیسے اسے ڈھونڈوں میں
ڈھلتی ہوئی راتوں میں اک نورِ سحر تھا وہ

وہ حسن فضاؤں کا وہ وجہ بہاروں کی
پھولوں کا سراپا تھا رنگین شجر تھا وہ

میں ٹوٹ گیا یکسر جب اس کو نہ دیکھا تو
منزل کا نشاں وہ تھا قندیلِ سفر تھا وہ

سجاد اسے پانا امکان سے باہر ہے
کھویا ہے جسے میں نے نایاب گہر تھا وہ
 

یاسر شاہ

محفلین
السلام علیکم
انسان کے لیے شجر کہنے میں کوئی حرج نہیں - اطہر صدیقی کہتے ہیں :

ہم تو اک پیڑ ہیں ہمارا کیا ہے
سر پہ دھوپ آئے یا گھٹا آئے

اور شعرا نے بھی استعمال کیا ہے -
غزل آپ کی مجھے کچھ مرثیے جیسی لگی -
 
السلام علیکم
انسان کے لیے شجر کہنے میں کوئی حرج نہیں - اطہر صدیقی کہتے ہیں :

ہم تو اک پیڑ ہیں ہمارا کیا ہے
سر پہ دھوپ آئے یا گھٹا آئے

اور شعرا نے بھی استعمال کیا ہے -
غزل آپ کی مجھے کچھ مرثیے جیسی لگی -
یاسر بھائی بہت شکریہ مرثیہ ہی ہے میں نے اپنے ایک بھائی کی یاد میں لکھی جو اوائلِ عمری میں اس فانی دنیا کو خیرباد کہہ گیا ہے
 
Top