نظم: برف کو پگھلنے دو ٭ ڈاکٹر افتخار برنی

دل بہت شکستہ ہے یہ ذرا سنبھل جائے
آخرِ زمستاں کی برف بھی پگھل جائے
چاک سارے سل جائیں
اور زخم بھر جائیں
ساعتیں شبِ غم کی
اور کچھ گزر جائیں
تم یہیں پہ دیکھو گے
کہ افق سے آئے گی
اک شعاعِ تازہ دم
پھر فصیلِ شب کا تم انہدام دیکھو گے
اور صبحِ روشن کے ساتھ ہی
صبا کو تم خوش خرام دیکھو گے
یہ جو زرد پتے ہیں اور اجاڑ رستے ہیں
یہ تو بیتنے والے موسموں کا حصہ ہیں
یہ جو ہاتھ خالی ہیں
آج ان درختوں کے
تم یقین رکھو بس دو گھڑی کا
قصہ ہیں
تم یہیں پہ دیکھو گے
بے ثمر درختوں پر کونپلیں نئی ہونگی
اور سبز چلمن سے فرطِ ناز سے کلیاں جھانکتی ہوئی ہوں گی
رنگ و نور و نکہت کے سلسلے
نئے ہوں گے
اور یارِ گم گشتہ پھر سے
مل رہے ہوں گے
تم ذرا ٹھہر جاؤ
اپنے سارے تنکوں کو
تم سمیٹ کر رکھو
اور ٹوٹے خوابوں کو
آس کی نئی چادر میں
لپیٹ کر رکھو
منجمد رگوں میں پھر
خون کی حرارت سے زندگی
رواں ہو گی
اس دلِ شکستہ میں
پھر سے زندہ رہنے کی
آرزو جواں ہوگی
آخرِ زمستاں کی
برف کو پگھلنے دو
دل ذرا سنبھلنے دو

٭٭٭
(ڈاکٹر افتخار برنی)
 
Top